عمران خان اور میاں صاحب طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں- شاید وہ ایسا کر گزریں- لیکن جب بھی انکا سامنا طالبان سے ہو تو وہ انسے ضرور پوچھیں کہ انہوں نے پشاور میں میرے آبائی گھر کے قریب میرے پڑوسی، سید عالم موسوی کو قتل کیوں کیا؟

مولانا عالم کو بیس جنوری کو قصّہ خوانی بازار کے نزدیک ڈھکی منور شاہ میں قتل کیا گیا- وہ نماز کی امامت کے لئے مسجد جا رہے تھے- موٹر بائیک پر سوار افراد نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا-

ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے ہزاروں لوگ کی طرح مولانا عالم کے قاتل بھی نامعلوم رہیں گے اور قانون کی گرفت سے بچ جائیں گے- انہیں تو شیعہ ہونے کی بنا پر نشانہ بنایا گیا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سنی بھی طالبان کے ستم کا مستقل نشانہ بن رہے ہیں-

پاکستان میں شیعہ اقلیت کے قتل عام کے لئے 'شیعہ نسل کشی' کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے- لیکن شیعہ ہی طالبان کے قاتلانہ اور رجعت پسندانہ نظریات کا شکار نہیں ہو رہے- آج سے کوئی سات سال پہلے طالبان نے پشاور پولیس کے جرات مند سربراہ ملک محمّد سعد کو خودکش حملے میں قتل کر دیا- طالبان کے ہاتھوں فرقہ وارانہ حملوں میں مرنے والے ہر شیعہ کے ساتھ کئی سنی بھی دہشتگرد حملوں کا شکار ہوتے ہیں-

آخر عمران خان اور نواز شریف ایسے لوگوں سے مذاکرات کے ذریعہ کس بات کی توقع کر رہے ہیں جنہوں نے پاکستان کی عوام کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے؟

مولانا عالم مذہبی علما کی دوسری نسل سے تھے- ان کے والد، مولانا صفدر حسین، پشاور میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے علم برداروں میں سے ایک تھے- پشاور شہر کے رہائشیوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ مولانا صفدر حسین میلاد النبی کے جلسوں میں اہل سنت کے علما کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلا کرتے تھے- اپنے والد کی طرح مولانا عالم بھی تمام فرقوں کے مذہبی علماء کو دوست رکھتے تھے-

مولانا عالم نے ہمیں عدم تشدد کا سبق دیا، یہ وہ روایت ہے جو باچا خان کی تعلیمات میں ہمیں ملتی ہیں، اور جو سرحد سے اب معدوم ہوتی جا رہی ہے- انتہائی مشکل حالات میں بھی میں نے مولانا کو پرسکون اور دوسروں کا احترام کرتے دیکھا-

سنہ انیس سو بانوے کی گرمیوں میں جب طالبان گروہوں نے شیعہ برادری پر حملہ کیا تب مولانا عالم نے پشاور کے بے چین نوجوانوں کو ان کے دوستوں کے قتل اور قبرستانوں کی بے حرمتی پر صبر و تحمل اور احترام کا درس دیا- دیگر مذہبی علماء کے برعکس وہ کسی حفاظت کے بغیر رہتے، اکیلے بنا کسی محافظ کے شہر میں گھومتے-

ہمارے لئے وہ ایک دوست کی مانند تھے- انہوں نے کبھی شادی نہیں کی، وہ میرے ننھیال کے قریب سڑک کی دوسری جانب رہتے تھے- کتابیں انکی سچی ساتھی تھیں، اور وہ انہیں دوسروں کے ساتھ بانٹنا پسند کرتے تھے- وہ غربت کی زندگی گزارتے رہے، اپنا کھانا خود پکاتے اور کپڑے بھی خود ہی دھوتے-

پشاور میں میرے کزنز کا تعلق رہا تھا- وہ ہمارا استقبال ہمیشہ مسکرا کر کرتے، اور اپنے ہاتھوں کا بنا قہوہ پیش کرتے- انہیں اس بات سے چڑ تھی کے میری فزکس اور میتھس، فارسی اور عربی سے بہتر تھی- وہ چاہتے تھے کہ ہم کلاسک ادب اصلی عربی یا فارسی میں پڑھیں- اگر ہم کبھی ساتویں صدی کی عربی یا تیرھویں صدی کی فارسی میں اٹکتے تو وہ ہمیشہ ہماری مدد کرتے-

مولانا کی سب سے بڑی طاقت ان لوگوں کو اپنانے کی خواہش تھی جو ان کے خیالات اور فلسفے سے متفق نہیں ہوتے تھے- انہوں نے کبھی اس حقیقت کا برا نہیں منایا کہ میں ایران کی ایک مذہبی ریاست میں تبدیلی کا حامی نہیں تھا اور ایک سیکولر مسلم سوسائٹی کی حمایت کرتا تھا جس میں مذہب اور ایمان ایک فرد کا ذاتی معاملہ تھا- وہ اپنے پڑوسیوں سے محبت کرتے تھے اور اپنے گھر کے سامنے کرسی ڈال کر بیٹھ جاتے اور آتے جاتوں سے سلام دعا کیا کرتے- انکی موت فقط شیعہ برادری کا ہی نقصان نہیں- انکی موت پشاور شہر کا نقصان ہے جو اب اپنے ماضی کی طرح متنوع، کثیر زبانی اور کثیر ایمانی نہیں رہا-

مولانا عالم کے برعکس، طالبان تکفیری نظریے کے حامی ہیں جہاں ان سے اختلاف رکھنے والوں کی سزا موت ہے-

ان سے کوئی محفوظ نہیں، نا ہی نوعمر ملالئے یوسفزئی جو خدا کے فضل و کرم سے قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئی، نہ ملک سعد اور نہ صفوت غیور جیسے وطن کے جوان جو اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران قربان ہو گۓ-

صرف شیعہ، کرسچین اور پاکستان کی دیگر اقلیت ہی نہیں بلکہ سنی بھی بلا امتیاز تشدد کا نشانہ رہے ہیں- پاکستان بھر میں شیعہ برادری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے خصوصاً بلوچستان میں جہاں شیعہ ہزارہ مسلسل اس عذاب میں مبتلا ہیں، اور ریاست کی جانب سے فقط گنہگاروں کے خلاف اقدامات کے جھوٹے وعدوں کے سوا اور کچھ نہیں کیا جارہا-

اسی دوران طالبان رائل آرٹلری بازار راولپنڈی میں غیر مسلح سنی شہریوں پر بم برسا رہے ہیں، اور پولیو کارکنوں اور ان کے محافظوں کا قتل کر رہے ہیں- یہ خیال غلط ہے کہ طالبان کسی مخصوص فرقے کے دشمن ہیں- دراصل انکا نشانہ پاکستانی سوسائٹی اور ریاست ہے-

پاکستانی فیڈریشن اور اس کے اداروں کے خلاف جاری بغاوت اور پاکستانی شہریوں کے خلاف جرائم کے واضح ثبوتوں کے باوجود وزیراعظم نواز شریف اور عمران خان ان کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں جو صفوت غیور، ملک سعد اور پاکستانی آرمی کے سرجن جنرل اور ایک حافظ قرآن، لیفٹینٹ جنرل مشتاق احمد بیگ جیسوں کے قاتل ہیں-

میاں شریف اور خان صاحب کو مطلوبہ مذاکرات کے لئے اپنے ایجنڈا اور اہداف سے قوم کو ضرور مطلع کرنا چاہیے- ہیومن رائٹس واچ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، عسکریت پسند پاکستان میں 'مجازی آزادی' کے ساتھ کام کر رہے ہیں جہاں ریاست یا تو انہیں روکنا نہیں چاہتی یا پھر انہیں روکنے سے قاصر ہے- قاتلوں کو مذاکرات کی پیشکش اور شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے سے انکار جمہوریت پر عوام کا اعتماد ڈگمگا رہا ہے-

اگر یہی حال رہا تو پاکستان افراتفری کی ایسی کھائی میں جا گرے کا جہاں امیر اور بااختیار بھی دہشتگردی سے محفوظ نہ رہ سکیں گے، خان صاحب اور میاں صاحب یہ نوٹ کرلیں-


انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: ناہید اسرار

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں