سال نو کے آغاز سے ہی دہشت گرد کوہاٹ، پشاور اور راولپنڈی سے لیکر مستونگ، کوئٹہ اور کراچی تک پاکستان کے چاروں صوبوں میں لوگوں کے خون سے ہولی کھیلنے میں مشغول ہیں جبکہ عوام کو اپنے پیاروں کے اجسام کے ٹکڑے سمیٹنے اور انہیں مٹی میں دفن کرنے سے فرصت نہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی عوام کی امیدیں بھی ان لاشوں کے ساتھ ہی قبروں میں دفن ہو رہی ہیں۔ دہشت اور بربریت کے اس ماحول میں عوام امید اور نامیدی کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ حکومت اور ریاست پر نظریں جمائے بیٹھی ہے جبکہ حکومت اور ریاستی ادارے حسب معمول اجلاسوں کے انعقاد اور روائتی بیانات جاری کرنے میں ہی مصروف ہیں۔

ایک طرف اگر دہشت گرداپنی تمام تر بربریت کے ساتھ بے گناہ لوگوں کے قتل عام میں مصروف ہیں تو دوسری طرف حکمران اپنے ان بگڑے بچوں کو چمکار کے مزاکرات کی میز پر لانے کے جتن کر رہے ہیں۔

کوئٹہ میں بھی نئےسال کا آغاز دہشت گردی کےواقعے سے ہوا جب نواحی علاقے اختر آباد میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے زائرین کی بس پر خود کش حملہ کیا گیا۔ یہ اس بات کی علامت تھا کہ دہشت گرد وں کو حکومت کا کوئی خوف نہیں اور وہ جب اور جہاں چاہیں اپنی کاروائیاں کر سکتے ہیں۔

اس حملے کی ذمہ داری جیش الاسلام نامی گروپ نے قبول کی جو اس سے قبل بھی ہزارہ قوم پر ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کرچکا تھا۔

ابھی لوگ اس واقعے سے سنبھلنے بھی نہیں پائےتھے کہ 21 جنوری کو مستونگ میں ہزارہ زائرین کی بس پر خود کش حملہ کیا گیا جس میں عورتوں اور بچّوں سمیت تیس سے زائد لوگ ہلاک ہوئے۔ اس واقعے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی۔

واقعے کے اگلے دن جہاں کچھ نوجوانوں نے مقتولین کی تدفین کے لئے اجتماعی قبریں کھودنے کی خاطر قبرستان کا رخ کیا وہاں ہزارہ مرد، عورتوں، بوڑھوں اور بچّوں نے ایک بار پھر انتہائی سخت سردی میں اپنے پیاروں کی لاشیں سڑک پر رکھ کر احتجاجی دھرنے کا آغاز کیا۔ ان کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ ہزارہ قوم کے قتل عام میں ملوث دہشت گردوں کے مکمل خاتمے تک ان کے خلاف کریک ڈاون کیا جائے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے دھرنے کے شرکاء سے مذاکرات کی خاطر وزیر داخلہ چودھری نثار کی سربراہی میں ایک وفد کوئٹہ بھیجا تاکہ انہیں احتجاج ختم کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔

مجھے یاد آیا کہ پچھلے سال بھی تو یہی کچھ ہوا تھا جب دس جنوری کو علمدار روڑ پر ہونے والے دو خود کش دھماکوں کے بعد ہزارہ عورتوں، مردوں اور بچوں نے سو سے زیادہ لاشوں کے ساتھ اسی طرح علمدار روڑ پر دھرنا دیا تھا تاکہ حکمرانوں اور ریاست کے دیگر کرتا دھرتاؤں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگایا جاسکے۔ تب راجہ پرویز اشرف ملک کے وزیر اعظم تھے جو ان روتے اور ماتم کرتے ہوؤں کو طفل تسلیاں دینے آپہنچے تھے۔

اس کے بعد ایک اور موقع پر جب نواز شریف وزیر اعظم کی حیثیت سے جنرل کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ کے ساتھ کوئٹہ تشریف لائے تو انہوں نے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تاکید کی تھی کہ وہ کوئٹہ کو ایک "ٹیسٹ کیس" کے طور پر لیں اور دہشت گردی کے مسئلے کو فوری حل کرنے کی کوشش کریں لیکن کسی نے ان کی بات کو اہمیت نہیں دی لہٰذا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا اور دہشت گردی پہلے کی طرح جاری رہی۔

اس واقعے کو کئی مہینے گزر چکے ہیں لیکن ہزارہ قوم کے لئے حالات آج بھی نہ صرف جوں کے توں ہیں بلکہ اس میں کسی بہتری کے آثار بھی نظر نہیں آرہے۔

مستونگ کے حالیہ واقعے کے بعد جب لوگ علمدار روڑ پر اپنے پیاروں کی لاشیں رکھ کر حکومت سے قاتلوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کر رہے تھے تو ایسا لگتا تھا جیسے پچھلے سال کے واقعے کا ہی ایکشن ری پلے ہورہا ہو۔

خون جمادینے والی وہی سردی، تابوتوں میں پڑی ویسی ہی کٹی پھٹی اور سوختہ لاشیں، عورتوں اور بچّوں کی وہی آہ و بکا، حکمرانوں کے وہی رسمی مذمتی بیانات، ہزارہ قوم سے اظہار یکجہتی کا وہی پرانا نسخہ اور وہی دعوے وہی وعدے۔

فرق تھا تو بس اتنا کہ اس مرتبہ وزارت عظمیٰ کی نشست پر راجہ صاحب کے بجائے نواز شریف تشریف فرما تھے اور وزیر داخلہ کی گردن پر رحمان ملک کے بجائے چودھری نثار کا چہرہ سجا ہوا تھا جو خود تو اپنا فرض منصبی ادا کر کے اور ہزارہ قوم کو ایک بہتر اور پر امن مستقبل کی آس دلا کر واپس چلے گئے لیکن لوگ ابھی تک ان کے وعدوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔

پچھلے سال بھی تو یہی کچھ ہوا تھا جب راجہ پرویز اشرف کے جانے کے بعد کچھ چھاپے پڑے تھے، کچھ گرفتاریاں ہوئیں تھیں اور کچھ لوگ پھڑکائے بھی گئے تھے لیکن بے گناہ اور نہتے لوگوں کا قتل عام جاری رہا۔

اب تو حکومت پر لوگوں کی بے اعتباری کا یہ عالم ہے کہ وہ اعلانیہ کہنے لگے ہیں کہ حکومت ان کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اس لئے کوئی دلچسپی نہیں رکھتی کیونکہ اس کشت و خون اور قتل عام میں ایسے لوگ ملوث ہیں جن کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ جو قتل عام کرکے آرام سے ٹہلتے ہوئے پاس ہی کسی ہوٹل میں کھانا کھانے اور چائے پینے بیٹھ جاتے ہیں اور کوئی انہیں گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کرتا اور یہی وہ محب وطن اورعوام دوست قوتیں ہیں جو کبھی لشکر جھنگوی تو کبھی جیش الاسلام اور کبھی خالد بن ولید فورس کے نام سے قتل عام کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔

14 سالوں میں چار حکومتوں کی تبدیلی کے باجود مسلسل جاری رہنے والے قتل عام اور دہشت گردوں کی سرکوبی میں حکومتی اداروں کی ناکامی بلکہ عدم دلچسپی کے باعث لوگوں کا اس نتیجے پر پہنچنا فطری امر ہے کہ ان دہشت گردوں کی بیخ کنی کسی حکومت کے بس کی بات اس لئے نہیں کیونکہ صوبے کے "اصل حکمران" ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے۔

لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک ایسی ریاست میں جہاں عوام کی حفاظت پر مامور ادارے اپنا کام آسان کرنے اور قانونی مو شگافیوں سے بچنے کی خاطر "محب وطن اور عوام دوست" لوگوں پر مشتمل پرائیویٹ آرمی اور ملیشیاء تشکیل دیتے ہوں، جہاں راہداریوں کے نام پر مجرموں کو ہر قسم کے اسلحے اور کالے شیشے والی غیر قانونی گاڑیوں کے استعمال کی اجازت ہو، جہاں قاتلوں کو "ملکی مفاد '' کے نام پر نہتے، معصوم اور بے گناہ لوگوں کو "ملک دشمن" قرار دے کر قتل کرنے کا لائسنس دیا جائے، جہاں پولیس دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے "قومی اور ملکی مفاد میں" انہیں سلیوٹ کرنے پر مجبور ہوں، جہاں کسی "بڑے صاحب" کی ایک ٹیلی فون کال پر تھانوں اور جیلوں کے پھاٹک کھل جائیں تاکہ قتل عام کرنے والے بہ آسانی فرار ہو سکیں اور جہاں عورتوں اور بچّوں کو چارہ بنا کر بے رحم "سٹریٹجک اثاثوں" کے سامنے پھینک دیا جائے تاکہ وہ ان کا خون بہا کر توانائی حاصل کریں وہاں زرداری، نواز شریف، رحمان ملک، چودھری نثار یا ڈاکٹرمالک رسمی بیانات جاری کرنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں جو خود محافظوں کی فوج کے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتے۔

بدھ 4 ستمبر 2013 کو کوئٹہ کے جنگ اخبار میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن بلوچستان کے صدر ڈاکٹر سلطان ترین کی ایک گفتگو شائع ہوئی تھی جس میں ڈاکٹروں کے اغوا برائے تاوان سے متعلق رونگٹے کھڑے کر دینے والے انکشافات تھے۔

ڈاکٹر سلطان کے مطابق چمن شہر سے اغوا ہونے والے ایک مشہور ڈاکٹر نے جسے ایک مکان میں قید رکھا گیا تھا اغوا کاروں کو آپس میں گفتگو کرتے ہوئے سناتھا کہ؛ "قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسروں اور ناکوں پر تعینات اہلکاروں کو حصہ کی ادائیگی پر ان کے ساٹھ لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں"۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ جس دن مستونگ کا واقعہ پیش آیا اسی دن صبح کے وقت پولیس نے ایک مغوی تاجر رمیش کمار کو بازیاب کرانے کے لئے سریاب روڑ پر واقع ایک مکان پر چھاپہ مارا جہاں پولیس اور اغوا کاروں کے درمیان ہونے والے مقابلے میں تین اغوا کار مارے گئے۔

اگلے دن جیش الاسلام نامی اسی گروپ نے جو یکم جنوری کے اختر آباد خود کش حملے میں ملوث تھا، اخبارات کو فون کرکے مذکورہ واقعے میں اپنے تین ساتھیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی اور حکومت سے ان لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اغوا کار پولیس کے مطالبے پر مغوی کو رہا کر دیتے تو اس خونی مقابلے کی نوبت ہی نہ آتی۔

یہ کوئی واحد مثال نہیں بلکہ بلوچستان خصوصاََ کوئٹہ میں ایسی کہانیاں عام ہیں جن کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اغوا برائے تاوان کے مجرموں کی پشت پناہی کرتے ہیں تاکہ نہ صرف اپنا خرچہ نکال سکیں بلکہ "آگے" بھی حصہ پہنچا سکیں.

یہ وہی "محب وطن اور عوام دوست" گروپس ہیں جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے اور جن کو نہ تو ناکوں پر روکا جاتا ہے نہ ہی کسی تھانے میں ان کے خلاف مقدمات قائم کئے جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا عوام کو نواز شریف اور ڈاکٹر مالک کی حکومتوں سے جو توقعات تھیں وہ کبھی پوری ہو سکیں گی؟

کیا ملک اور صوبے کے عوام کو کبھی سکھ کا سانس لینا نصیب ہوگا؟

کیا ہزارہ قوم کو چودھری نثار کے وعدوں پر یقین کر لینا چاہئے جن کے مطابق ان کے خون کا بدلہ لیا جائے گا اور بلوچستان کو ایک پرامن صوبہ بنایا جائے گا؟

کیا ہزارہ مائیں اس بات کی توقع کر سکیں گی کہ ان کے پھول جیسے بچّے مذہبی جنون کے نام پر آئندہ کسی وحشت اور بربریت کا شکار نہیں بنیں گے؟

لوگ یہ سوال پوچھنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ ان دہشت گردوں کے خلاف سنجیدہ اور حقیقی کریک ڈاون کے لئے کس بات کا انتظار کیا جارہا ہے اور دہشت گردی کے اس دیو کو قابو کرنے کے لئے مزید کتنے معصوموں کی قربانی دینی لازمی ہے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت کو افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کا انتظار ہو اور یہ سارا کشت و خون لہو گرم رکھنے کا محض ایک بہانہ ہو؟

تبصرے (0) بند ہیں