مظفرآباد: ٹرک مالکان کی ایک ایسوسی ایسوسی ایشن نے دھمکی دی ہے کہ جب تک کہ ان کے اننچاس ساتھیوں کو رہا نہیں کردیا جاتا وہ مظفرآباد اور سری نگر کے درمیان چلنے والی بس سروس کو روک دیں گے۔ یاد رہے کہ یہ ٹرک ڈرائیور سترہ جنوری سے کشمیر کے درمیان تجارت کی معطلی کے بعد سے اپنے ٹرکوں سمیت ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں رُکے ہوئے ہیں۔ ٹرک ڈرائیوروں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان ٹرک ڈرائیوروں کو ان کے ٹرکوں سے سمیت گھر جانے کی اجازت دی جائے۔

آزاد جموں کشمیر اور ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکام کے درمیان منعقدہ اجلاس میں پیر سے لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف تجارتی کو بحال کرنے کے فیصلے کے ایک روز بعد وادیِ جہلم گڈز ٹرانسپورٹرز یونین کے اراکین نے گزشتہ روز جمعہ کو چناڑی پریس کلب کے باہر دھرنا دیا۔

چناڑی، چکوتھی اوڑی کراسنگ پوائنٹ سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں سترہ جنوری کو آزاد کمشیر کے 49 ٹرک اور ہندوستان کے زیر انتظام کمشیر سے تجارتی سامان سے لدے ہوئے 27 ٹرک ایک دوسرے کے مخالف اطراف میں رُکے ہوئے ہیں۔

ہندوستانی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ان میں سے ایک ٹرک سے ہیروئن کے ایک سو چودہ پیکٹس برآمد کیے تھے اور اس کے ڈرائیور کو حراست میں لے لیا تھا، جس کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف 76 ٹرک اور ان کے ڈرائیور پھنس گئے تھے۔

اس موقع پر مظاہرین کا کہنا تھا کہ بس سروس بحال کرنے کا اعلان 76 ٹرک ڈرائیوروں اور ان رشتہ داروں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہندوستان آزاد کشمیر میں پھنسے اپنے 99 مسافروں کی خاطر بس سروس کی بحالی کے لیے پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈال سکتا ہے تو آزاد جموں کمشیر کی حکومت اپنے 49 ڈرائیوروں کی واپسی کا مطالبہ کیوں نہیں کرسکتی۔

اسی دوران ایل او سی یونین کے ایک بیس رکنی وفد نے گزشتہ روز جمعہ کو ٹریول اور تجارتی انتظامیہ کے ڈائریکٹر جنرل ریٹائرڈ بریگیڈیئر محمد اسماعیل سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ وہ پاکستان کے وزیر خارجہ کو اس بات پر قائل کریں کہ ڈرائیوروں کی ہندوستان سے واپسی تک کمشیر کے درمیان تجارت شروع نہیں کی جانی چاہیے۔

ایل او سی ایونین کے وفد میں شامل ایک رکن اعجاز احمد میر نے ڈان کو بتایا کہ ہم بس سروس کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہیں، لیکن ہم اس کے ساتھ یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ایک بھی معصوم ڈرائیور کی قیمت پر ہم تجارت کی بحالی کو قبول نہیں کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں