کبھی کبھار سب کچھ صرف ایک انتخاب سے ہی عیاں ہوجاتا ہے۔ چار رکنی حکومتی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کے لیے کالعدم ٹی ٹی پی کی طرف سے ارکان کی نامزدگی نہایت چونکا دینے والی ہے۔ نامزد ارکان کس طرح دیکھے جاتےہیں، ضروری نہیں کہ خود ٹی ٹی پی بھی ایسا ہی دیکھتی ہو۔ یہاں، مختصراً کہہ لیں کہ کمیٹی کے پانچ نامزد ارکان ہیں: پی ٹی آئی، جے آئی، جے یو آئی۔ ف، لال مسجد اور بابائے طالبان۔

یہ تو پرانا کھلا راز ہے کہ پاکستان کی جڑ کے مترادف جمہوری اور آئینی اقدار کے مقابلے میں، دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں، شدت پسندوں کے نظریات کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتی ہیں۔

لال مسجد بدنامی والے عبدالعزیز اور طویل عرصے سے 'بابائے طالبان' کہلائے جانے والے سمیع الحق کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں، انہیں یہ چھپانے کی، کوئی کوشش کرنے کی ضرورت نہیں لیکن عمران خان؟

جب بعض، میڈیا اور عوامی حلقوں نے انہیں طالبان خان کے لقب سے نواز، تب پی ٹی آئی اور عمران خان نے پلٹ کر وار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہیں مکمل طور پر غلط سمجھا گیا، وہ پاکستان کے مرکزی دھارے کا حصہ بنے رہنے پر پُرعزم ہیں لیکن ٹی ٹی پی اپنی جانب سے عمران خان کو بطور مذاکرات کار دیکھتی ہے؟

کم از کم، تحریک انصاف کے سربراہ نے فوری طور پر طالبان نامزدگی بدلوانے کی کوشش کی، اگرچہ یہ ناکافی ہے لیکن پھر بھی انہوں نے جان بوجھ کر اپنی جماعت اور ٹی ٹی پی کے درمیان فاصلہ کرلیا ہے۔ اس کے باوجود، یہ سنجیدگی سے مذاکرات کے آغاز اور اس کی سمت پر بنیادی سوال چھوڑتا ہے۔

حکومت کی طرف سے اگر پہلے ہی ایک پی ٹی آئی مذاکرات کار شامل ہو اور ٹی ٹی پی چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ بھی اس کی طرف سے مذاکراتی ٹیم کا حصہ بنیں تو پھر، محدود اور شاید عارضی امن حاصل کرنے کے مایوس کُن تصور میں، سودے بازی کی گنجائش کس قدر رہ جاتی ہے؟

یقینی طور پر، مسئلہ پی ٹی آئی تک محدود نہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کی وفاقی حکومت نے بھی اب تک، بظاہر ہر قدم ٹی ٹی پی کے ہاتھوں کھیلتے ہوئے اٹھایا ہے۔ حتیٰ کہ اس وقت بھی حکومت کی طرف سے مذاکرات کی حدود پر کوئی سرخ لکیر یا ٹائم فریم کا اطلاق نہیں کیا گیا۔

جب وزیرِ داخلہ جیسے حکومتی نمائندے کہیں کہ اس وقت ٹی ٹی پی کی جانب سے پیش کردہ بعض شرائط زیرِ غور ہیں، تو وہ کن مطالبات کا حوالہ دے رہے ہیں؟

ٹی ٹی پی کے مطالبات کی فہرست بالکل واضح اور سیدھے سبھاؤ ہے: جمہوریت نہیں، آئینی ضمانت کے حامل حقوق نہیں، بس ایک خاص اور انتہائی عدم برداشت پر مبنی مذہبی نظریہ ہے جسے مکمل طور پر نافذ کرنا ہے۔

اگرچہ کسی بھی منتخب حکومت کو اپنے نظریے اور پالیسی کو آگے بڑھانے کا حق حاصل ہے لیکن کیا اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ وہ ریاست کی بنیادوں پر بھی سودے بازی کرسکتی ہے؟

پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی پاکستانیوں کو اپنے ووٹوں سے، نسبتاً آزادانہ طور پر انتخاب کی اجازت ملی، انہوں نے وفاق کی سیاست کرنے والی روشن خیال، اعتدال پسند جماعتوں کو ہی منتخب کیا لیکن اس وقت ملکی قیادت الجھنوں اور ابہام کا شکار ہے جبکہ بڑے پیمانے پر عوام جانتی ہے کہ طالبان کس شے کے لیے کھڑے ہیں۔

کیا واقعی حکومت تاریخ کے مجموعی وزن اور عوام کی آواز کو نظر انداز کرسکتی ہے؟

تبصرے (0) بند ہیں