'بگ تھری' کا ہتھوڑا

08 فروری 2014
۔—فائل فوٹو اے ایف پی۔
۔—فائل فوٹو اے ایف پی۔

دنیائے کرکٹ میں 'تین بڑوں' کے منصوبے پر جو ہنگامہ برپا ہے اس پر کسی نے کیا خوب کہا کہ یہ "دادا گیری کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش" ہے۔ 'بدمعاش' کے اس لقب پر فی الحال تو ہندوستان، آسٹریلیا اور انگلینڈ کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا کیونکہ جس ڈھٹائی کے ساتھ ان تینوں ممالک نے اپنی سفارشات انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے روبرو پیش کی ہیں، اس سے یہی ظاہر ہو رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ بدمعاشی کا نہیں بلکہ خالصتاً مالی مفادات کا ہے۔

ہندوستان، آسٹریلیا اور انگلینڈ اس وقت اپنے ملک میں منعقدہ سیریز کی میزبانی کے نشریاتی حقوق سے بڑی آمدنی حاصل کرتے ہیں جبکہ بقیہ سات مالک اس معاملے میں کہیں پیچھے ہیں۔ تمام ممالک اس بنیادی ذریعے کے علاوہ اپنی بیشتر آمدنی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے حاصل کرتے ہیں جو وہ ورلڈ کپ، چیمپئنز ٹرافی، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیسے ٹورنامنٹس کے نشریاتی حقوق بیچ کر آمدنی حاصل کرتا ہے اور پھر اسے برابری کی بنیاد پر تمام رکن ممالک میں تقسیم کرتا ہے۔ آئی سی سی کی تنظیم نو کے لیے پیش کردہ متنازع سفارشات میں سب سے اہم معاملہ اسی آمدنی کا ہے۔

ہندوستان، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے علاوہ بقیہ تمام سات رکن ممالک بنیادی طور پر آئی سی سی کی جانب سے حاصل کردہ آمدنی پر ہی انحصار کرتے ہیں اور دوطرفہ سیریز کی میزبانی کرکے انہیں بہت کم آمدنی حاصل ہوتی ہے حتیٰ کہ جنوبی افریقہ بھی اتنی آمدنی حاصل نہیں کر تا کہ مالی معاملات میں خودکفیل ہوجائے۔ نشریات کے موجودہ معاہدے ہی اس کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہیں۔ ہندوستان نے صرف انڈین پریمیئر لیگ کے نشریاتی حقوق 165 ملین ڈالرز سالانہ میں سونی ٹیلی وژن کو بیچ رکھے ہیں جبکہ ہندوستان میں مقامی اور بین الاقوامی کرکٹ کے لیے اس نے اسٹار گروپ سے 620 ملین ڈالرز سے بھی زیادہ کا معاہدہ کر رکھا ہے جو سالانہ 103 ملین ڈالرز بنتے ہیں۔

دوسری جانب انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے مقامی و بین الاقوامی کرکٹ کے لیے اسکائی ٹی وی کے ساتھ 4 سالوں کے لیے 464 ملین ڈالرز کا معاہدہ کر رکھا ہے جو سالانہ 116 ملین ڈالرز بنتے ہیں۔

'مثلث'کے تیسرے رکن آسٹریلیا نے مقامی، بین الاقوامی اور بگ بیش لیگ کے لیے چینل 9 اور 10 کے ساتھ اگلے پانچ سالوں کے لیے 519 ڈالرز کا معاہدہ کررکھا ہے یعنی کہ ہر سال 104 ملین ڈالرز۔

ان تینوں کے مقابلے میں جنوبی افریقہ کو دیکھ لیں، جو بقیہ ممالک کے مقابلے میں تو کہیں بہتر پوزیشن میں ہے لیکن اس کا مقامی و بین الاقوامی کرکٹ کے لیے 8 سالوں کے لیے ٹین اسپورٹس کے ساتھ معاہدہ صرف 202 ملین ڈالرز کا ہے یعنی کہ محض 25 ملین ڈالرز سالانہ۔

اب ان نشریاتی حقوق کو مدنظر رکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جنوبی افریقہ اپنی آمدنی کا 58 فیصد حصہ آئی سی سی سے حاصل کرتا ہے جبکہ ہندوستان صرف 5 اور انگلینڈ اور آسٹریلیا بالترتیب 13 سے 14 فیصد۔ اب اگر 'تین بڑوں' کی سفارشات و تجاویز پر عملدرآمد کیا جائے تو ہندوستان، آسٹریلیا اور انگلینڈ تو ہر لحاظ سے فائدے میں رہیں گے کیونکہ آئی سی سی میں ان کے حصے میں اضافہ بھی ہوگا لیکن بقیہ سات ممالک کے بورڈز کا تو دیوالیہ نکل جائے گا۔

مجوزہ سفارشات میں اہم ترین مطالبہ فیوچر ٹورز پروگرام کے خاتمے کا ہے جس کے تحت تمام رکن ممالک ایک خاص عرصے کے لیے پابند ہوتے ہیں کہ وہ دیگر ممالک کی میزبانی بھی کریں اور وہاں کا دورہ بھی۔ لیکن ایف ٹی پی کے خاتمے کا پورا فائدہ ان 'تین ممالک' کو حاصل ہوگا جو ٹی ٹوئنٹی فرنچائز کرکٹ کو بڑھانے کے خواہاں ہیں اور ان تینوں کی سب سے منافع بخش کرکٹ یہی ہے۔ روپوں سے کھیلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ فیوچر ٹورز پروگرام ہے کیونکہ اس کے تحت ٹیمیں پابند ہیں اور یہ تینوں ممالک پابندیوں کی یہ بیڑیاں توڑنا چاہتے ہیں۔

اس کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ فیوچر ٹورز پروگرام کا خاتمہ کرکے چھوٹے سات ممالک کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنا مشکل بنا دیا جائے، یوں وہ بھی ٹی ٹوئنٹی لیگز کے اس کھیل میں ان کا ساتھ دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یعنی 'تین بڑے' ممالک عالمی کرکٹ پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ عالمی کرکٹ کو اپنے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ مال بنا سکیں۔

اس لیے یہ سفارشات، جن کے بارے میں فی الحال تو یہی اندازہ ہے کہ باآسانی منظور ہوجائیں گی، بالخصوص ٹیسٹ کرکٹ کی موت کا پروانہ ہوں گی۔ علاوہ ازیں اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ ہندوستان، آسٹریلیا اور انگلینڈ دوبارہ ایک نیا مسودہ لے کر، اور زیادہ طاقت کے ساتھ، چند سالوں میں ایک مرتبہ پھر آئی سی سی کے دروازے پر نہ کھڑے ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں