... اجل، ان سے مل

اپ ڈیٹ 27 فروری 2014
پا کستان کی نوجوان نسل شدید ذہنی بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اس بوکھلاہٹ کی پیدائش میں نصابی کتب، معاشرتی رویے، میڈیا اور سیاست دان برابر کے شریک ہیں۔ - السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
پا کستان کی نوجوان نسل شدید ذہنی بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اس بوکھلاہٹ کی پیدائش میں نصابی کتب، معاشرتی رویے، میڈیا اور سیاست دان برابر کے شریک ہیں۔ - السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

لاہور میں پاکستان بھر سے اکٹھے نوجوانوں کی ایک تقریب میں ہمارے ایک عزیز دوست سنسر شپ کے موضوع پر بات کرتے کرتے یہ ذکر بھی کر بیٹھے کہ ہماری نصابی کتب جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ فرط جذبات میں انہوں نے محمود غزنوی، محمد بن قاسم، شہاب الدین غوری وغیرہ کو بھی رگید دیا اور ان کے متعلق سچ بات کہہ ڈالی۔

جس طرح شہری خوراک پر پلنے بڑھنے والوں کو دیہات میں خالص خوراک ملنے پر پیٹ میں مروڑ اٹھنے شروع ہو جاتے ہیں، یہی حالت پاکستان کی جھوٹ اور پروپیگنڈے سے بھری نصابی کتب پڑھنے والوں کی سچ سننے پر ہوتی ہے۔

اقبال کی پسندیدہ خودی سے بھرپور نوجوانوں کی اس محفل سے بہت سی صدائیں ہمارے دوست کے خلاف بلند ہوئیں۔ ایک صاحب نے گزارش کی کہ ایسی ’متنازعہ‘ باتیں عوام کے سامنے نہیں کرنی چاہئیں، ایک صاحب نے فرمایا کہ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اسلامی ہیروز کو زیرو کس نے بنایا ہے، ایک مقرر نے خیال ظاہر کیا کہ اسلام کی تاریخ میں بہت سے سائنس دان وغیرہ بھی رہے ہیں اور ایک مشتعل نوجوان نے مغرب کے اسلام پر حملے کے خلاف کچھ بات کی۔

ہمارے دوست نے جواب میں کہا کہ اگر متنازعہ باتیں سننے کا حوصلہ نہیں تو ایسی محفلوں میں آنے سے گریز کیا کریں، تاریخ کے ہیروز کو نسیم حجازی کی کتابوں سے باہر بھی ڈھونڈنے کی کوشش کریں، اور یہ جو ’مسلمان سائنس دانوں‘ والی بات ہے، ان میں سے بیشتر کو انکی زندگیوں میں ہی کافر قرار دیا جا چکا تھا۔

’مغرب کے ظلم‘ والے بھائی سے محفل کے بعد ملاقات ہوئی تو دریافت کیا کہ انکا اشارہ کس مغربی ملک کی جانب تھا۔ انہوں نے جواب میں برطانیہ کے ایک فٹبال کلب کا نام لیا۔ اس نوجوان نے ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا نوحہ بھی پڑھا۔

وقت کی کمی کے باعث ہم ان حضرت کو یہ نہیں بتا سکے کہ ہندوستان میں کم از کم نوحہ پڑھنے کی آزادی تو ہے، ہمارے ہاں تو نوحے پڑھنے والوں کو کبھی کوئٹہ تو کبھی لاہور تو کبھی کراچی میں کافر قرار دے کر مار دیا جاتا ہے۔ بہر حال اس موقعے پر ن۔م راشد ہمیں بہت یاد آئے۔

اس واقعے سے چند ماہ قبل فیس بک پر ہمارے میڈیکل کالج کے ہم جماعتوں کے بیچ بحث جاری تھی جس میں اکثر افراد کا خیال تھا کہ القاعدہ دراصل مغربی پیداوار ہے اور اس کو صرف مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے ایک ہوّا بنایا گیا ہے۔
گزشتہ چند سال سے پاکستان میں نوجوانوں کی بڑھتی تعداد پر بہت سے پرامید تجزیے کیے گئے، جاوید چوہدری صاحب نے اس موضوع پر خصوصی پروگرام کیے، برطانوی کونسل نے ایک سروے کروایا، اور اس نوعیت کے بہت سے دیگر تجربے کیے گئے۔ 2013 میں ہونے والے قومی انتخابات سے پہلے تمام معروف سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کی۔

ہم بذات خود اسی نوجوان نسل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن گھر کے بھیدی کی حیثیت سے لنکا ڈھانا ہمارے خیال میں وقت کا اہم تقاضا ہے۔

ہمارے ناقص مشاہدے کے مطابق پا کستان کی نوجوان نسل شدید ذہنی بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اس بوکھلاہٹ کی پیدائش میں نصابی کتب، معاشرتی رویے، میڈیا اور سیاست دان برابر کے شریک ہیں۔

انگریزی پڑھانے کے شوق میں والدین اپنے لاڈلوں اور لاڈلیوں کو ’انگلش میڈیم‘ سکول میں داخل کرواتے ہیں جبکہ گھر پر اردو، پنجابی، سندھی، پشتو، سرائیکی یا بلوچی زبان میں بات کی جاتی ہے۔

انگلش میڈیم کے نام پر قائم بیشتر درسگاہوں کے اساتذہ تک انگریزی سے واقف نہیں کیونکہ اچھی انگریزی جاننے والا شخص اس ملک میں اور تو ہر کام کر سکتا ہے، استاد بننا اسکی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں ہوتا۔

پاکستانی معاشرے میں والدین بچوں کو تعلیم صرف اس وجہ سے دلواتے ہیں کہ انکو نوکری مل جائے۔ شعور دلوانے کی یہاں کوئی اہمیت نہیں، روٹی پانی چلتا رہنا چاہئے۔

اس تردّد کے باوجود ماہر تعلیم بیلا جمیل کے ادارے کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں تین سے سولہ برس کی عمر کے پچاس فیصد سے زائد طالب علم اردو کے سہ حرفی لفظوں پر مشتمل تین سطریں پڑھنے سے قاصر ہیں۔ پرائمری سطح پر تعلیم کا حال بہت مخدوش ہے۔ پنجاب کی حکومت نے دانش سکول تعمیر کیے (باقی صوبوں کو یہ توفیق بھی نہیں ہوئی) لیکن پہلے سے موجود پرائمری سکولوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔

میٹرک اور او لیول کے نصاب مختلف ہیں اور اس مقام پر دو مختلف نظام تعلیم، سوچ کے دو مختلف زاویے پیدا کر رہے ہیں۔ او لیول کے برطانوی نظام کا بھی ہم نے توڑ نکال رکھا ہے اور اسی طرح آئے روز پاکستانی طالب علم ان امتحانات میں نت نئے ریکارڈ بناتے نظر آتے ہیں (ایسے ہی ایک صاحب اب تعلیم چھوڑ کر ایک میڈیا گروپ سے وابستہ ہو چکے ہیں اور ہر فن مولا بن چکے ہیں۔)

جس نظام کو برطانیہ اور دوسرے چند ممالک، طلبا میں تجسس اور تحقیق پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، ہم نے رٹے کا سہارا لے کر اس نظام کی چولیں ہلانے کا عہد کر رکھا ہے۔

پاکستان میں کالج اور یونیورسٹی میں سوال کرنے پر قدغن لگائی جاتی ہے اور ہر سال ہزاروں کی تعداد میں لکیر کے فقیر درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں تعلیم کی معراج یہ ہے کہ طالب علم کو ٹھیک زبان (یعنی انگریزی) میں درخواست لکھنی آ جائے اور بنیادی حساب کتاب کرنا سیکھ لیا جائے۔ اس کے علاوہ سوال جواب یا تحقیق کو غیر ضروری تصور کیا جاتا ہے۔

مستزاد یہ کہ نصابی کتب غلطیوں سے بھری ہوئی ہیں اور تاریخ تو ایک طرف ، فزکس جیسے مضمون کی نصابی کتب میں سینکڑوں کی تعداد میں غلطیاں ہیں۔ معروف سائنس دان پرویز ہودبھائی کے مطابق؛

"آج ہمارے کسی سکول میں طالب علموں کو سوچنے کی تربیت نہیں دی جاتی، چاہے وہ اشرافیہ کا مہنگا اسکول ہو یا پھر معمولی فیس لینے والا کوئی کمیونٹی سکول۔"

ہم ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں توثیق اور تصدیق کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

میڈیکل کالجوں اور انجینرنگ یونیورسٹیوں کے حالات بھی یہی ہیں۔ یاد رہے کہ لشکر طیبہ قائم کرنے والے تمام افراد اعلی تعلیمی درسگاہوں میں استاد تھے۔ حتی کہ القاعدہ قائم کرنے والے شیخ عبداللہ عظام کئی سال اسلام آباد کی اسلامی یونیورسٹی میں استاد رہے۔

تعلیمی درسگاہوں میں طلبہ سیاست پر پابندی کے باعث طلبہ بنیادی سیاسی شعور سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہمارے کئی اہم تعلیمی اداروں کے سربراہ سابق فوجی ہیں اور فوجی دماغ سے تحقیق یا سوچ کی آزادی کی توقع رکھنا ممکن نہیں۔

جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر صاحب گیارہ ستمبر کے سازش ہونے پر ایک کتاب لکھ مارتے ہیں تو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر جوہری توانائی کے اسرار و رموز مذہبی کتابوں میں ڈھونڈنے کی للکار بلند کرتے ہیں۔ جامعہ پنجاب میں تو جیش محمد کھلے عام جہاد کے موضوع پر تقریری مقابلے تک منعقد کرواتی ہے۔

نصابی کتب اور معاشرتی رجحانات کے زیر اثر ہمارے نوجوان کسی راہنما، کسی لیڈر یا کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ شخصیت پرستی کا سبق ہمیں بچپن سے پڑھایا اور رٹوایا جاتا ہے اور ہمارے ذہن شخصیتوں سے باہر سوچنے کی جانب مائل ہی نہیں۔

نصابی کتب کے تمام ہیرو، محمد بن قاسم سے لے کر محمد علی جناح تک، سب کے سب انسان تھے جنکی زندگیوں کے تمام پہلو ہمیں معلوم نہیں، لیکن ہم ان کے بارے میں تنقید کا ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں کرتے۔

یہی حالت پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور انکے ارکان کی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، نواز شریف، شہباز شریف، الطاف حسین یا عمران خان کے بارے میں انکی جماعتوں کے ارکان کسی قسم کی تنقید برداشت نہیں کرتے، جو کہ شخصیت پرستی کا ہی شاخسانہ ہے۔

بچپن سے ہی یہ نکتہ ذہن میں بٹھایا جاتا ہے کہ ہم سب سے افضل قوم ہیں اور پاکستان دنیا کا اعلی ترین ملک ہے (حالانکہ حقائق اسکے برعکس ہیں اور یہ تضاد نوجوانوں کے ذہن میں Cognitive Dissonance پیدا کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آئے روز کسی عالمی سائنس دان یا اداکار کے مسلمان ہونے کی خبر اڑائی جاتی ہے، کیونکہ ہمارا ذہن یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ کوئی مشہور یا عظیم بندہ غیر مسلم بھی ہو سکتا ہے!)۔

ماہر تعلیم فرزانہ باری کے مطابق؛

"اگر نصاب میں یہ پڑھایا جائے کہ ہمارا مذہب سب سے افضل ہے اور باقی مذاہب کم تر ہیں، تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنیت معاشرتی تناؤ کا باعث بنتی ہے۔"

یہ انوکھے لاڈلے ذاتی زندگی امریکی اور یورپی انداز میں گزارنا چاہتے ہیں لیکن ملک میں خلافت قائم کرنے کے حامی ہیں۔ انہیں طالبانی شریعت بھی چاہئے اور مادھوری بھی۔

غیر نصابی کتب کے مطالعے کا رجحان زوال پذیر ہے اور اگر کوئی لگے ہاتھوں ’آسان‘ کتب کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اشفاق احمد، بانو قدسیہ یا عمیرہ احمد کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جن کی کتابیں پڑھ کر روشن خیالی یا غور و فکر کی جانب طبیعت مائل ہونا ممکن ہی نہیں۔

انٹرنیٹ کی بدولت علم حاصل کرنا بہت زیادہ آسان ہو چکا، لیکن ہمارے نوجوان کسی اعلی مغربی درسگاہ سے مفت تعلیم حاصل کرنے کی بجائے فیس بک یا کچھ حد تک ٹوئٹر پر الٹی سیدھی تصویریں پھیلانے اور لڑکیوں کے تعاقب میں مشغول ہیں۔

مذہب کے معاملے میں انٹ شنٹ باتیں پھیلانے کے معاملے میں ہم انٹر نیٹ کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔ تحقیق کی بجائے انٹرنیٹ کو فرقہ وارانہ جھگڑوں اور اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے ہر دوسری ویب سائٹ پر تبصرہ جات لکھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی اسی ذہنی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ جہاں دنیا بھر میں خواتین آزادی نسواں کا بھرپور فائدہ اٹھاتی نظر آتی ہیں اور اپنی زندگی پر اختیار رکھتی ہیں، ہمارے دیس میں الٹی گنگا بہتی ہے۔

ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستانی خواتین کی ایک کثیر تعداد عربی طرز کا حجاب اپنانے کے حق میں ہے۔ معاشرتی سطح پر بھی لڑکیاں مغربی طرز زندگی کی دلدادہ ہیں لیکن فیس بک پر مذہبی پیج بھی سرعت سے لائک کرتی نظر آتی ہیں۔

اس صورت حال میں غیر جمہوری رویے اور سازشی تھیوریوں پر اعتقاد بڑھتا جا رہا ہے۔ تحقیق اور سوال اٹھانے کی عدم موجودگی میں نوجوان ذہن زاید حامد جیسے شعبدہ بازوں اور عمران خان جیسے نعرے بازوں کے پیچھے جوق در جوق جمع ہوتے ہیں۔ اس بے یقیں ریوڑ کو راہنما جہاں ہانکنا چاہیں، ہانک دیتے ہیں۔

انہی نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد نے اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور اسکے خلاف امریکی آپریشن کو جھوٹ قرار دیا، خواتین کی تعلیم کے بارے میں آواز اٹھانے والی ملالہ کو ڈرامہ کہا اور اعتزاز حسن کو ان میں سے شائد ہی کوئی ہیرو مانتا ہو۔

ہنگو میں لڑکیوں کے سکول پر خود کش حملہ آور سے لپٹ کر بہت سی معصوم جانیں بچانے کے لیے اپنی قربانی دینے والے اعتزاز حسین کے حق میں نوجوانوں کی جانب سے کتنی آوازیں بلند ہوئیں؟

سچ پوچھیں تو نوجوانوں کی اس بوکھلاہٹ اور ذہنی کشمکش کی تمام تر ذمہ داری نوجوانوں کے ناتواں کندھوں پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ جس نسل کے لیے علم اور معلومات کا ذریعہ ٹی وی چینلو ں کی چنگھاڑتی بریکنگ نیوز ہو، اور روزانہ ٹاک شوز میں سیاست کی الف ب گالم گلوچ کے ذریعے سکھائی جائے، اس سے اور کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟

کیا ان حالات میں پاکستان کی موجودہ نوجوان نسل سے کوئی امید رکھنا درست ہے؟

کیا یہ نوجوان اس ملک کی تقدیر کو بدلنے میں کامیاب ہو ں گے یا صرف فحش ویب سائٹس دیکھنے کے مقابلے میں اول آتے رہیں گے؟ ذاتی طور پر میں اس نسل سے مایوس ہو چکا ہوں اور ن م راشد کی یہ نظم پاکستان نوجوانان کے نام کرنا چاہتا ہوں۔

اجل، ان سے مل

کہ یہ سادہ دل

نہ اہل صلوٰۃ اور نہ اہل شراب

نہ اہل ادب اور نہ اہل حساب

نہ اہل کتاب۔۔

نہ اہل کتاب اور نہ اہل مشین

نہ اہل خلا اور نہ اہل زمین

فقط بے یقین

اجل، ان سے مت کر حجاب،

اجل، ان سے مل

ن م راشد --

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

deehanrarsi Feb 27, 2014 01:50pm
بہت علیٰ جناب، نوجوان نسل ذہنی زبوں حالی کا بہترین نقشہ کھینچا ہے
Dr Hafiz Safwan Muhanmad Chohan Feb 28, 2014 05:18am
فرقہ واریت سے بھری مذہبی نصابی کتب پڑھنے والوں کی بھی سچ سننے پر یہی کیفیت ہوتی ہے۔
Ali Zaidi Feb 28, 2014 06:07pm
پہلی بار کسی نوجوان نے وہ لکھا ہے جو میں کہہ کہہ کر تھک چکا ہوں مگر میری تو کوی سننے کو تیار نہیں.
neophyte Feb 28, 2014 10:18pm
Excellent, agreed