ایک پاکستانی صحافی کی امریکا یاترا

اپ ڈیٹ 30 جولائ 2014
وائٹ ہاؤس -- فوٹو -- لکھاری
وائٹ ہاؤس -- فوٹو -- لکھاری
لنکسٹر کے تقریبا تمام گھروں کے لئے ایک ہی جیسا فن تعمیر استعمال کیا گیا ہے -- فوٹو -- لکھاری
لنکسٹر کے تقریبا تمام گھروں کے لئے ایک ہی جیسا فن تعمیر استعمال کیا گیا ہے -- فوٹو -- لکھاری
فوٹو -- لکھاری
فوٹو -- لکھاری

یہ چار حصّوں پر مشتمل سیریز کا پہلا حصّہ ہے


ویسے تو پاکستان کا تقریباً ہر شہری ہی امریکہ کو گالیاں دیتا ہے مگر امریکہ آنا بھی سبھی چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستانی امریکہ جانے کے لئے کسی بھی قسم کے پروگرام میں اپنی قسمت آزمانے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔

پاکستانی ہونے کی وجہ سے میں نے بھی امریکہ کے تعاون سے ہونے والے ایک ایکسچینج پروگرام میں اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اور خوش قسمتی کہ قسمت کی دیوی مہربان ہوئی اور مجھے جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام کے ذریعے امریکہ دیکھنے کا موقعہ مل گیا۔

امریکہ کی اسلام آباد میں موجود ایمبیسی میں دو سے تین گھنٹے لگانے کے بعد خوشخبری ملی کہ امریکی حکومت کی جانب سے ویزہ عنائت کردیا گیا ہے اور جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام کے منتظمین کے مطابق مجھے مارچ کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد سے سفر پر روانہ ہونا ہے۔

منتظمین کی جانب سے اس سلسلے میں مسلسل سفری ہدایات ملتی رہیں جن میں ہمیں پاکستانی ہونے کی وجہ سے مطلع کیا گیا کہ کس قسم کا سامان لیجانا ہے اور کس قسم کا نہیں۔

سو مقررہ دن پرواز سویرے سویرے اسلام آباد سے بیس صحافیوں کا بوجھ اٹھائے دوہا کے لئے روانہ ہوئی اور صحافی بھی وہ جن میں سے زیادہ تر کا تعلق برقی میڈیا سے تھا اور ان کے لئے دہشتگردی اور انتہا پسندی کی رپورٹنگ معمول کی بات تھی۔

اسلام آباد ائر پورٹ پر کچھ صحافیوں نے اپنے ذرائع استعمال کرتے ہوئے لمبی لائنوں کو باآسانی عبور کر لیا جب کہ باقی صحافی ہونے کے باوجود لمبی لائنوں میں لگے ذرائع استعمال کرنے والے صحافیوں کو غائبانہ گالیاں دیتے رہے۔

دوہا ایئر پورٹ پر پاکستانیوں کو بھی باقی قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرح ایک ہی چھڑی سے ہانکا گیا مگر بورڈنگ سے قبل ہولی ووڈ کی انگریزی فلموں میں پیش کئے جانے والے خفیہ ایجنسی کے کارندے سے بالکل ملتا جلتا گنجا آسمان سے ٹپک پڑا۔ جس نے اکثریت پاکستانی صحافیوں سے مختلف سوالات کئے۔ جس کے بعد اس کی جانب سے بورڈنگ کارڈز پر خفیہ الفاظ میں کچھ تحریر کردیا گیا۔ جس کے بعد تمام صحافیوں نے چہ مگیئاں کرنی شروع کردیں کہ اب ہمیں واشنگٹن ایئر پورٹ پر انکوائری کے لئے روکا جائیگا۔

خیر خلاف توقع ایسا کچھ نہیں ہوا اور ہمیں صرف ڈھائی گھنٹے کے لئے بے یارومددگار ایئرپورٹ پر بٹھایا گیا اور اس طرح بیس پاکستانی صحافی دوہا سے چودہ گھنٹے کی پرواز کے ذریعے سترہ گھنٹوں میں واشنگٹن پہنچے۔ جہاں انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس کی جانب سے ہمارا خیر مقدم کیا گیا۔

صحافیوں کی جانب سے اپنے میزبان سے گلہ بھی کیا گیا کہ کیا آئی سی ایف جے نے پہلے ہی ایئر پورٹ سیکیورٹی کو مطلع نہیں کیا تھا کہ پاکستان سے جرنلسٹس آرہے ہیں۔ میزبان کی جانب سے جواب دیا گیا۔ آپ جو بھی ہوں۔ ہیں تو پاکستانی ہی ناں!

اسطرح اسلام آباد سے شروع ہونے والا یہ سفر انگریزی کے سفر میں اختتام پزیر ہوا۔ پہنچنے کے بعد آئی سی ایف جے کی جانب سے مختلف قسم کی بریفنگز کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جو کہ نا صرف معلوماتی تھیں بلکہ ان میں ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ کیسے کوئی بھی امریکی صحافی کانگریس سے کوئی معلومات حاصل کر سکتا ہے۔

اس کے علاوہ ہماری ملاقات امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی سے بھی کروائی گئی۔ جنہوں نے اپنے ہی ملک سے آئے ہوئے صحافیوں کو ٹائم دینے میں کافی کنجوسی کا مظاہرہ کیا۔

ابھی تک کے اپنے اس دورے میں مختلف امریکی لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ جن کا امریکی حکومت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ تمام لوگ پاکستان کے نام سے تو واقف تھے مگر اس سے زیادہ ان کو کچھ نہیں پتا تھا کہ پاکستان جو کہ ایک دہشت گرد ملک ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ امریکی لوگ پاکستان سے متعلق جاننے میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔

آئی سی ایف جے کی جانب سے میری پوسٹنگ پنسلوینیا کے ایک شہر لنکسٹر میں کی گئی جو کہ واشنگٹن سے پچپن منٹ کی فلائٹ کی دوری پر ہے۔ میرے میزبان یعنی کے آئی سی ایف جے کے نمائندے نے مجھے انٹرنیٹ کے ذریعے شٹل سروس کا انتظام کر کے دیا اور مجھے ہدایات دیں کہ چونکہ میرا تعلق پاکستان سے ہے لہزٰا مجھے کم سے کم تین گھنٹے پہلے ایئر پورٹ پہنچنا ہوگا۔

صبح سویرے تیار ہونے کے بعد میں شٹل کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ میزبان ادارے کی جانب سے ہمیں موبائل سمز بھی مہیا کی گئیں اور مجھے میرے نمبر پر ایک نمبر سے زنانہ آواز میں ایک خود کار کال موصول ہوئی کہ ہماری سروس آپ کے پاس بارہ منٹ میں پہنچ جائیگی۔

زنانہ کال کی خود کاری کا اندازہ تب ہوا جب میں نے جواب میں ہوٹل سے ایئر پورٹ کا فاصلہ پوچھنے کی جرات کی۔ مزید حیرانگی تب ہوئی جب واقعی بارہ منٹ بعد ایک اور کال موصول ہوئی کہ ہماری شٹل ہوٹل کے باہر آپ کا انتظار کر رہی ہے اور واقعی شٹل وہاں تھی۔

سوار ہونے کے بعد دو اور مسافروں کو لیتے ہوئے میزبان کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے جب میں ایئر پورٹ پہنچا تو وہاں ابھی ایئر لائنز کا عملہ بھی نہیں پہنچا تھا۔ کچھ انتظار کے بعد جب عملہ آیا تو میں نے اپنا بورڈنگ کارڈ لیا اور عملے کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے سیکیورٹی معائنے کے لئے لمبی لائن میں لگ گیا۔ یہ دیکھ کر کافی تسلی ہوئی کے امریکیوں کے علاوہ ہر ملک سے تعلق رکھنے والے ایک ہی سیکیورٹی لائن میں لگے ہیں۔

سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد ڈیلس ایئرپورٹ پر ٹرین کے ذریعے اور اپنی ٹانگوں کا لمبا استعمال کرتے ہوئے مقررہ گیٹ پر پہنچا۔ جہاں میری ملاقات ایئر لائنز کے یونیفارم میں ملبوس ایک پائلٹ سے ہوئی جو کسی ایسی ریاست کا رہائشی تھا جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ ابتدائی معلومات کے تبادلے کے بعد پائلٹ کی جانب سے نا ختم ہونے والا سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔

یہ جان کر مجھے انتہائی حیرانگی ہوئی کے جہاز میں سینکڑوں افراد کو لانے لیجانے والا پائلٹ اس بات سے ہی نا آشنا تھا کہ دنیا کا سب سے مطلوب شخص اسامہ بن لادن پاکستان میں مقیم تھا اور اس کو امریکن میرینز نے ایک ریڈ میں مارا۔

اس کو بتانے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کے یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی۔ پتہ نہیں کہ وہ کیا سمجھے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ یہ سچ جانے کے بعد اس نے اسامہ سے متعلق سوالات کا انبار لگا دیا! اسامہ پاکستان پہنچا کیسے؟ کیا پاکستان کی حکومت کے علم میں نہیں تھا کہ اسامہ ان کے ملک میں رہائش پزیر ہے؟ کیا پاکستانی حکومت نے اس پر کوئی اجتجاج نہیں کیا؟ اور اس طرح کے بہت سارے سوالات۔

اپنی پچاس منٹ کی اس فلائٹ میں میں اس کھیلوں کے شوقین پائلٹ کو اس کے سوالات کے جوابات ہی دیتا رہا۔ لیکن مجھے اب بات کی خوشی ہے کہ ایک عام امریکی پاکستان کے بارے میں کچھ بھی برا نہیں سمجھتا۔

میں نے جب اس یہ پوچھا کے کیا وہ پاکستان جانا چاہے گا تو اس کا کہنا تھا کے ہاں مجھے پاکستان جانے کا بہت شوق ہے۔

پنسلوینیا کے شہر لنکسٹر میں اپنے میزبان جو کہ ایک مقامی چینل کے ڈائریکٹر نیوز ہیں سے پہلے ہی روز ملاقات کافی دلچسپ رہی۔ جب میں نے پوچھا کے ایک دن میں ان کے چینل پر کتنی بریکنگ نیوز ہوتی ہیں تو میں یہ سن کر دنگ رہ گیا کہ ایک ڈائریکٹر نیوز کے مطابق ایک دن میں نہیں بلکہ ایک ہفتے میں ایک یا دو بریکنگ نیوز ہوتی ہیں۔

جواب میں میزبان کی جانب سے یہی سوال جب مجھ سے پوچھا گیا تو میں کسر نفسی کا استعمال کرتے ہوئے کہا کے ہمارے ہاں تو ایک دن میں بس پچاس ساٹھ ہی بریکنگ نیوز ہوتی ہیں۔ یہ سنتے ہی اس نے کہا کے کیا آپ کی ہر خبر ہی بریکنگ نیوز ہوتی ہے؟ میں جوابا شرمندگی میں چپ ہوگیا اور ڈھیٹ بن کر جواب دیا، آخر کار ہم لوگ حالت جنگ میں ہیں!

لمبی تاریخ رکھنے والے اس شہر میں ابھی تو میرا پہلا ہی دن تھا اور اس پہلے دن ہی ہمارے میڈیا پر بریکنگ نیوز کی بہتات کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ پتہ نہیں جب میں یہاں کے ایک مقامی چینل میں جانا شروع کروں گا تو مجھے لوگوں کے کِن کِن سوالوں کا جواب دینا پڑیگا۔

تبصرے (1) بند ہیں

qasim Jul 31, 2014 01:48pm
last 3 paragraphs are epic