... چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

29 مارچ 2014
رضا رومی -- فوٹو -- وکی میڈیا کامنز
رضا رومی -- فوٹو -- وکی میڈیا کامنز

آج پھروطن عزیز پر قیامت ٹوٹتے ٹوٹتے رہ گئی- 'نامعلوم افراد' آج سچ کی ایک اور شمع بجھانے چلے تھے-

ایکسپریس نیوز کے تجزیہ کار، رضا رومی پر قاتلانہ حملہ، صرف ایک صحافی پر حملہ نہیں تھا، یہ حملہ سچائی پر تھا، انصاف پر تھا، ہماری سوچنے سمجھنے کی آزادی پر تھا، یہ حملہ پاکستان پر تھا-

اس افسوسناک خبر کے بعد ملک میں ایک بار پھر خوف و دہشت کی لہر دوڑ گئی ہے- اور یہی تو ان ظالموں کی خواہش ہے، یہی تو وہ چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھے کوئی عوام کو انکے مکروہ چہرے دکھانے کی کوشش نہ کرے- کوئی یہ نہ بتاۓ کہ یہ مذاکرات مذاکرات کا کھیل محض ایک دھوکہ ہے اور تحفتاً بھیجے گۓ ان ڈالروں کے پس پردہ اصل مقصد کچھ اور ہے- یہ خفیہ عناصر نہیں چاہتے کہ لوگ جان پائیں کہ دہشتگردی کی جڑیں ملک میں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں-

ایسا نہیں کہ یہ سب پہلی بار ہوا ہے- پاکستان میں پچھلے کئی سالوں سے مسلسل صحافی ٹارگٹ کلنگ نشانہ بن رہے ہیں، ہر وہ صحافی جو ملک میں موجود خفیہ عناصر کی ریشہ دوانیوں کی طرف اشارہ کرتاہے، انہیں بے نقاب کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کی قسمت میں بندوق کی ایک گولی لکھ دی جاتی ہے اور ہمارے حکومتی اداروں کی طرف سے سواۓ مذمتی پیغامات کے اور کچھ نہیں ہوپاتا- اور بعض اوقات تو اس کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی جاتی-

ریاست کی حیثیت ایک تماشائی جیسی ہوگئی ہے- حکومت کی کیا ذمہ داری ہے، شہریوں کی سلامتی، انکی فلاح، انکی آزادی کتنی اہم ہے، جیسے یہ سب کوہ قاف کی کہانیاں بن کر رہ گئی ہیں- دشمن عناصر علی الاعلان میڈیا اور صحافیوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں اور اپنے ایجنڈے میں مصروف ریاست انکا کچھ نہیں بگاڑ پاتی-

لیکن آفرین ہے ان وطن عزیز کے سپوتوں پر کہ انہوں نے سچائی کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا- اپنی جانوں کو ہمہ وقت لاحق خطرے کے باوجود وطن کے دشمنوں کے خلاف نبرد آزما رہے ہیں- انہوں نے بتا دیا ہے کہ جنگیں فقط سرحدوں پر تلواروں اور بندوقوں سے لڑی نہیں جاتیں بعض جنگیں لوگوں کے بیچ رہ کر لفظوں سے بھی لڑی جاتی ہیں، جسے 'جہاد باالقلم' کہتے ہیں- اور وطن کے دشمن اسی جہاد سے ڈرتے ہیں-

رضا رومی جیسے متعدل مزاج تجزیہ کار اور دیگر صحافیوں، ڈاکٹرز، دانشوروں اور ہیلتھ ورکرز پر جان لیوا حملے اس بات کے عکاس ہیں کہ ہمارا معاشرہ کتنا غیر محفوظ ہوگیا ہے اور ہم کتنے بے حس ہوگۓ ہیں کہ اپنے چاروں طرف برپا اس ظلم و زیادتی کے باوجود خاموش ہیں- موت کا رقص جاری ہے اور ہم محض تماشائی بنے بیٹھے ہیں- یوں لگتا ہے جیسے ہم سب ذہنی اور جذباتی طور پر سرینڈر کر چکے ہیں-

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہر فرد ایک ایسا زومبی بن چکا ہے جسے روٹی، کپڑا اور مکان کے سوا اور کچھ نہیں سوجھتا- ہم میں اب اتنی صلاحیت بھی نہیں کہ ملک کی روز بروز بگڑتی ہوئی حالت پر غور کر سکیں، احتجاج تو دور کی بات- وطن کے سپوتوں کی حوصلہ افزائی کرنا تو کجا ہم میں اب اتنی سکت بھی نہیں کہ انکی موت کا ماتم ہی کرسکیں-

صبح سورج پھر نکلے گا، دفتروں، بس اسٹاپس، بازاروں، پبلک مقامات پر اس واقعہ کا تذکرہ کیا جاۓ گا، لوگ اپنی اپنی عقل و فہم کے مطابق اس موضوع پر بحث کریں گے- زندگی کا کارواں یوں ہی چلتا رہے گا، ملک دشمن عناصر مزید طاقتور ہونگے انکے حوصلے اور بڑھیں گے، کچھ دن بعد ایک اور گھر سے جنازہ اٹھے گا، حق کے کسی اور علمبردار کو نشانہ بنایا جاۓ گا، ریاست اسی طرح خاموش تماشائی بنی رہے گی-

یہ سب کب تک چلتا رہے گا؟ کب تک یونہی سچائی کا گلا گھونٹا جاۓ گا؟ کب تک ہم یوں قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے- کب ریاست شہریوں کی طرف اپنی ذمہ داری سمجھے گی؟ کب وہ وقت آۓ گا جب ہم اپنے ملک میں بنا کسی خوف، بنا کسی ڈر کے سر اٹھا کر چل سکیں گے؟ کب ہم آزادی کی کھلی فضا میں سانس لے پائیں گے؟

نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے


لکھاری: ناہید اسرار

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Mohammad Aslam Shahab Mar 29, 2014 06:06pm
یہ رسم نئی نہیں ہےرقص زنجیر،دلائی کیمپ،پکا قلعہ واجمیر نگری آپریشن کلین اپ سب یاد ہےاورآگہی بھی ہے کہ یہ سب انہی رویوں کا نتیجہ ہے