ٹی ٹی پی ڈرائیونگ سیٹ پر؟

اپ ڈیٹ 06 اپريل 2014
خفیہ رکھے گئے مذاکرات پر پیشرفت کے دعوے، لگتا ہے ٹی ٹی پی پھر فائدے میں ہے۔ فائل فوٹو۔۔۔
خفیہ رکھے گئے مذاکرات پر پیشرفت کے دعوے، لگتا ہے ٹی ٹی پی پھر فائدے میں ہے۔ فائل فوٹو۔۔۔

روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی پیشرفت، حالات کے اتار چڑھاؤ اور کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ خفیہ مذاکرات کی غیر اہم باتوں کے سبب، پڑھنے کی خاطر بہت کچھ ہونا ممکن ہے۔ جیسا کہ دونوں فریقین کی طرف سے متواتر اعادہ کیا جارہا ہے کہ مذاکراتی عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، لہٰذا، خود ہی یہ اظہار ہے کہ چھوٹے رجحانات اہم ہیں۔

اس وقت حکومت، ٹی ٹی پی کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے اگلے مرحلے کی تیاریاں کررہی ہے جو مغالطے سے پاک رجحان ہے: ٹی ٹی پی قوت پکڑ رہی ہے جبکہ حکومت کمزور اور بے یقینی کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔

ذرا سب سے حالیہ ترین پیشرفت پر غور کیجیے۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے گذشتہ روز، اپنی عادت کے مطابق، ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ حکومت کی طرف سے مزید قیدی رہا کیے جارہے ہیں۔

یقیناً، سوالات اٹھتے ہیں کہ یہ قیدی کون ہیں؛ ان کا جُرم، اگر کچھ ہے تو کیا؛ آیا یہ وہ ہیں جن کی رہائی کا ٹی ٹی پی نے بطورِ خاص مطالبہ کیا تھا؛ اگر ایک طرف، بلاشبہ، انفرادی سطح پر لوگوں کی رہائی کی اہمیت کو کمتر کر کے پیش کیا جارہا ہے تو پھر یہ رہائی، مذاکرات میں کس طرح معاون ثابت ہوگی؟ ان میں سے کسی ایک بھی سوال کا جواب اب تک نہیں ملا۔

علاوہ ازیں، نظر یہ آرہا ہے کہ مذاکراتی عمل میں ایک بار پھر ٹی ٹی پی خود کو بالادست رکھنے میں کامیاب ہوچکی۔ اب جیسا کہ سبھی یہ جانتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے پہلے قیدی کی رہائی متعدد مراحل کے بعد، مارچ کے آخری دس دنوں کے دوران عمل میں آئی تھی۔

اس کے باوجود، ٹی ٹی پی نے داخلی سطح پر یہ بحث شروع کرکے کر ایک بڑا شو بنادیا تھا کہ آیا جنگ بندی یکم اپریل کے بعد بھی جاری رہے گی؛ یا اس کے بعد جو دس روز کی توسیع کی گئی ہے، کیا یہ حتمی ہے۔ بظاہر ٹی ٹی پی نے تاثر دیا کہ اس نے اپنے نیٹ ورک میں شامل تنظیموں اور گروہوں کی سخت مخالفت مول لے کر، بڑے مشکل حالات میں توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔

لہٰذا، اب جبکہ مذاکراتی عمل کے اگلے مرحلے کی طرف بڑھ رہے ہیں، تمام تصورات بالکل واضح ہوچکے: ٹی ٹی پی بہت زیادہ صبر و تحمل اور فراخ دلی کا مظاہرہ کررہی ہے؛ حکومت، کسی معاہدے کو مستحکم بنانے کے لیے رعایتیں دینے پر دُہری ہوئی جارہی ہے۔

حکومت نے جب دو مواقعوں پر سخت موقف اپنایا تو اس کے بعد، لب و لہجے، رویوں اور نتائج میں آنے والی تبدیلیوں پر ذرا غور کیجے۔ اوّل، جب حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے اصرار کیا کہ کوئی بھی معاہدہ آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہی ہوگا، تب ٹی ٹی پی نے اپنی مذاکراتی کمیٹی میں شامل اس تصور کے مخالف، لال مسجد والے مولانا عبدالعزیز کو الگ کر کے یہ بات مان لی تھی۔

اگلا، ٹی ٹی پی کی مہمند شاخ نے جب سن دو ہزار دس میں یرغمال بنائے گئے ایف سی کے تئیس اہلکاروں کو قتل کیا، تب حکومت نے اپنے قدم پیچھے ہٹا کر ٹی ٹی پی سے غیرمشروط جنگ بندی کا مطالبہ کردیا۔ ایک بار پھر حیران کُن طور پر ٹی ٹی پی مان گئی۔ اور پھر، ایک ماہ طویل جنگ بندی کے دوران پُرتشدد کارروائیوں میں نہایت واضح کمی دیکھی گئی۔

نتائج اپنے منہ آپ بولتے ہیں۔ جب بھی ریاست ثابت قدمی سے کھڑی ہوئی اور حکومت نے مذاکراتی عمل کے لیے درکار کم از شرائط پر اصرار کیا، ٹی ٹی پی کے کام پر دباؤ پڑا۔ لیکن جب جب ٹی ٹی پی کو مواقع سے فائدہ اٹھانے کی اجازت اور مذاکرات کی شکل و صورت طے کرنے کی چھوٹ ملی، یہ زیادہ دیدہ دلیر ہوئی اور مطالبات کرنے میں منہ پھٹ بن گئی۔

اب ایک بار پھر نظر یہی آرہا ہے ٹی ٹی پی فائدے میں ہے۔

انگلش میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں