طالبان کی کہانی

اپ ڈیٹ 08 اپريل 2014
مذاکراتی عمل میں، داستانِ جنگ کو یکسر فراموش کردینا حکومت کی بڑی اور بنیادی غلطی ہے۔
مذاکراتی عمل میں، داستانِ جنگ کو یکسر فراموش کردینا حکومت کی بڑی اور بنیادی غلطی ہے۔

حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکراتی عمل میں اب تک ایک بنیادی اورسب سےبڑی غلطی یہ کی کہ داستانِ جنگ کو مکمل طور پر فراموش کردیا ہے۔

جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو اس نے اپنے عمل کے، ریاست اور معاشرے پر پڑنے والے اثرات سے قطع نظر، ایسے فوائد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مذاکرات کے تصور کو آگے بڑھایا، جس سے تشدد کی شرح کم ہوسکے، حالانکہ اس کے نتائج کم ٹھوس ضرور ہیں لیکن کمتر اہمیت کے حامل ہرگز نہیں۔

پروپیگنڈا اور دھمکیوں کے ذریعے لڑی جانے والی ٹی ٹی پی کی نظریاتی جنگ پر غور کیجیے۔ اس محاذ پر تازہ ترین جرائتمندانہ قدم ٹی ٹی پی کے میڈیا ونگ، عمر میڈیا، کے تحت چلنے والی ویب سائٹ کی شکل میں اٹھایا گیا ہے۔ یہ ویب سائٹ گذشتہ روز کے بعض حصوں تک قابلِ رسائی تھی لیکن اس کے بعد کیا ہوا، یہ واضح نہیں۔

آیا اس ویب سائٹ تک رسائی کو حکومتی احکامات پر روکا گیا یا پھر غیرملکی ویب سائٹ ہوسٹنگ کمپنی کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر اسے آف لان کیا گیا، اب تک یہ علم نہیں ہوسکا۔

دوسری بات یہ کہ ٹی ٹی پی نے اپنی آفیشل ویب سائٹ تشکیل دینے کا باضابطہ اعلان کیا تھا، جس سےاشارے ملتے ہیں پروپیگنڈا کی جنگ دوسرے مرحلے کے گروپ میں داخل ہوچکی۔ مذاکرات کے ساتھ ساتھ اپنی کہانیاں بیان کرنے کی ضرورت کیوں درپیش ہوئی؟

اس پرغور کیجیے کہ ملک ایک بار پھر اس مرحلے پر پہنچ چکا جہاں ٹی ٹی پی کے ساتھ مقابلے کے بجائے، حکومت ان سے مذاکرات میں زیادہ آسانی تلاش کرتی ہے۔

اگرچہ یہ تو بہت پہلے ہی واضح ہوچکا تھا کہ ٹی ٹی پی کا نظریہ عدم برداشت اور خوں ریزی پر مشتمل ہے تاہم دائیں بازو کی حامل مذہی و سیاسی جماعتیں بدستور یہ تاثر دیتی رہی ہیں کہ طالبان صرف قدامت پسند محبِ وطن ہیں، جو دہشتگردی کے خلاف جنگ کا ساتھ دینے پر پاکستان کے خلاف مشتعل ہیں۔ اور اگر ایک مرتبہ ریاست گمراہی پر مبنی اپنی پالیسی کا رخ پلٹ دے تو عسکریت پسند بھی اپنے ہتھیار پھینک دیں گے۔

ٹی ٹی پی خود اپنے مقاصد و اہداف کیا بیان کرتی ہے اس سے قطع نظر، بیان کردہ اس کہانی کو موثر طور پر چیلنج نہ کرنے کے باعث، یہ ہر قیمت پر مذاکرات شروع کرنے کا نقطہ آغاز بن گیا۔

ٹی ٹی پی اور حکومت کی مفاہمانہ پالیسیوں کے زیادہ تر سخت ناقدین، میڈیا پر تشدد اور دھمکیوں کے باعث خاموش ہوچکے، ایسے میں عوامی میدان میں اُن کی بیان کردہ کہانیوں کا مقابلہ کرنے کی گنجائش بہت ہی کم باقی رہی ہے۔

چاہے مرکزی سیاسی دھارے میں شامل نظریاتی اتحادیوں یا میڈیا کے ذریعے ایسا کیا جائے یا پھر براہ راست ٹی ٹی پی خود یہ کام کرے، طالبان کا عالمی نظریہ جارحانہ انداز سے گردش کررہا ہے اور جو چیز جارحانہ انداز میں اس کا مقابلہ کرسکتی ہے، وہ ہے صرف عوام کے ذہن و دل۔

یکطرفہ جنگ کے اثرات بہت خطرناک ہوسکتے ہیں، اس لیے جہاں تک رائےعامہ کا تعلق ہے تو یہ قابلِ قبول کے زمرے میں، ٹی ٹی پی کے واسطے زیادہ سے زیادہ مراعات لاتا ہے۔

پاکستانیوں کو جو سننے کی واقعی ضرورت ہے وہ یہ کہ حکومت ٹھوس طریقے سے یہ نفاذ کرے کہ پاکستان جمہوری ریاست ہے جس میں آئینی سیاست اور فرد کے انفرادی حقوق مقدس ہیں۔

اور اس کا متبادل طالبان کا عالمی نظریہ ہے، جسے اس وقت ایک بار پھر، عملی طور پر پیش کیا جارہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں