موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات

08 اپريل 2014
سب کچھ ماورائی فلموں جیسا لگتا ہے لیکن پاکستان سمیت کوئی بھی اس خطرے سے محفوظ نہیں۔
سب کچھ ماورائی فلموں جیسا لگتا ہے لیکن پاکستان سمیت کوئی بھی اس خطرے سے محفوظ نہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی حدّت سے انکار کرنے والوں کو دلیل دینے کی خاطر بہت سے ثبوت سامنے سجادیے گئے ہیں۔ کرّہ ارض پر، بنی نوع انسان کی سرگرمیوں کے نہایت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور قدرتی و قابلِ تجدید وسائل کے خاتمے کا عمل بدستور جاری و ساری ہے۔

انسانی سرگرمیوں سے پھیلی آلودگی کے متعدد اثرات کا رخ اب بھی بدلا جاسکتا ہے۔ دنیا کی امید اب صرف تباہ کُن نتائج کی حامل سرگرمیوں کی رفتار، ممکنہ حد تک سُست تر کرنے میں پوشیدہ ہے۔

یہ سب کچھ تخّیلی انداز کا سا لگتا ہے لیکن اس کے ذریعے تمام جوابات پیش کردیے گئے ہیں:

موسمیاتی تبدیلیوں پر اقوامِ متحدہ کے بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) نے گذشتہ ہفتے جاپان میں اپنی رپورٹ جاری کردی، جس میں تمام تر ذمہ داری 'انسانی مداخلت' پر عائد کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ایک ایسی دنیا جو تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کی خاطر 'پوری طرح تیار نہیں' لیکن اس کی مداخلتوں کے اثرات تمام ملکوں اور سمندروں پر مرتب ہورہے ہیں۔

جیسا کہ آئی پی سی سی کے چیئرپرسن راجندر پچوری کا کہنا تھا کہ 'اس کرّہ ارض پر کوئی ایسا نہیں جو ان تبدیلیوں کے اثرات سے محفوظ رہ پائے گا۔۔۔'

ان تبدیلیوں کے نتیجے میں، بیان کردہ اثرات بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی کے مناظر سے بھرپور فلموں کی طرح لگتے ہیں:

دستیاب پانی کی مقدار میں کمی، فصلوں کی پیداواری نظام میں تبدیلی، بڑے پیمانے پر بھوک اور خوراک کی فراہمی کے معاملے پر سمجھوتہ، ساحلی علاقوں میں تباہ کُن طوفان اور زمین پر آنے والے سیلاب بڑے شہروں کو تباہی سے دوچار کردیں گے، نہایت سخت موسم کے سبب بجلی کی فراہمی اور پانی کے بہاؤ میں رخنے پڑیں گے۔

نیز، عالمی موسمیاتی تبدیلیوں اور حدّت میں اضافے کی بنا پر، خوراک اور پانی کی قلت کے باعث قوموں اور کمیونٹیز کے درمیان تنازعات و مسلح تصادم کے بھی خطرات پیدا ہوں گے۔

موسمیاتی تبدیلیوں اورعالمی حدّت سے، کرّہ ارض پر مرتب ہونے والے سنگین اثرات کی مرتب فہرست خاصی طویل ہے اور رپورٹ کا کہنا ہے کہ ایک خاص حد کے اندر رہتے ہوئے، انسان ان تبدیلیوں سے مطبقت پیدا کرنے کے قابل ہوسکتا ہے۔

عالمی حدّت میں اضافے کا سبب بننے والی آلودہ سرگرمیوں کی زیادہ تر ذمہ داری ترقی یافتہ دنیا پرعائد ہوتی ہے لیکن افسوس کہ تپش و بڑھتے درجہ حرات کی بنا پر، سطحِ سمندر کی اونچی ہوتی سطح کے زیادہ تر نتائج، دنیا کی غریب ترین اور پسماندہ آبادی کو ہی بھگتنا پڑیں گے۔

اور اس کی بنا پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو اپنے منصوبے وضع کرنے کے لیے کام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

جیسا کہ ہم گذشتہ برسوں کے دوران یہ تجربہ کرچکے کہ سیلابوں سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں، خوراک کی قلت بڑھ رہی ہے اور گلیشیروں کا پگھلاؤ ایک حقیقت ہے۔ آنے والے وقت میں، ان مسائل کی شدت میں صرف اضافہ ہی ہوگا۔

مجموعی طور پر دنیا کو سبز سوچ کی ضرورت ہے۔ دنیا کے وہ تمام ممالک جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے خطرات کا سامنا ہے، انہیں اس چیلنج کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں