'جس کے ساتھ ریپ ہو اُسے بھی پھانسی دو'

11 اپريل 2014
ملائم سنگھ نے ریپ کے مجرموں کی پھانسی پر اعتراض کیا تھا تو ابواعظمی نے ریپ کی متاثرہ کو بھی پھانسی دینے کا بیان داغ دیا۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا
ملائم سنگھ نے ریپ کے مجرموں کی پھانسی پر اعتراض کیا تھا تو ابواعظمی نے ریپ کی متاثرہ کو بھی پھانسی دینے کا بیان داغ دیا۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا

ممبئی : سماج وادی پارٹی کے صدر ملائم سنگھ یادو کی ریپ پر قابل اعتراض تقریر کے بعد اب مہاراشٹر سماج وادی پارٹی کے سربراہ ابو اعظمی نے ایک عجیب و غریب بیان داغ دیا ہے کہ ’’ریپ کے مجرم کے ساتھ ریپ کی متاثرہ لڑکی کو بھی پھانسی کی سزا دی جانی چاہئے ۔‘‘

ابواعظمی کا یہ بیان اس وقت آیا جب ان سے ملائم کی تقریر کے حوالے سے سوال کیا گیا، انہوں نے رپورٹر سے کہا کہ ’’اسلام میں جنسی زیادتی کی سزا سنگسار یعنی موت ہے، لیکن یہاں صرف مرد کو سزا ملتی ہے، عورت کو نہیں۔ جبکہ خواتین بھی اس میں قصوروار ہوتی ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا ’’ہندوستان میں اگر متفقہ طور پر جنسی عمل کیا جائے، تو درست ہے، لیکن اگر کوئی اس کی شکایت کرتا ہے، تب مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ ہم نے ایسے کئی معاملے دیکھے ہیں کہ لڑکیوں کو کوئی چھوتا بھی ہے تو وہ شکایت کرتی ہیں، اور کبھی تو بغیر چھوئے ہی شکایت کرتی ہیں۔ تب یہ مسئلہ بن جاتا ہے ، اس طرح سے مردوں کا احترام ختم ہوتا جارہا ہے۔ ریپ رضامندی سے ہو یا اس کے بغیر، اسلام میں اس کے لیے سزا طے ہے۔‘‘

ریپ کے مسئلے کا حل جب ان سے پوچھا گیا تو ابو اعظمی نے کہا کہ ’’اس کا حل یہی ہے کہ اگر کوئی كنواری یا شادی شدہ خواتین رضامندی سے یا جبراً کسی مرد کے ساتھ جاتی ہے تو اسے بھی پھانسی ہونی چاہئے۔ دونوں کو ہی پھانسی پر لٹكانا چاہئے۔ اس معاملے میں اس وقت بھی بات نہیں مانی جائے جب کسی عورت کی رضامندی ہو۔‘‘

دوسری جانب ابو اعظمی کے بیٹے اور شمال مشرقی ممبئی سے لوک سبھا کی سیٹ کے لیے انتخابی امیدوار فرحان اعظمی نے اپنے والد اور پارٹی کے سربراہ کے بیان کے بالکل برعکس بیان دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریپ کے مجرم کو سو بار پھانسی پر چڑھانا چاہئے، میری پانچ بہنیں ہیں اور ہمارے خاندان میں سب ہی لوگ اسی طرز پر سوچتے ہیں۔

یاد رہے کہ ابھی کل ہی سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ نے یوپی میں ایک انتخابی جلسے کے دوران اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ریپ کے مجرموں کو دی جانے والی پھانسی کی سزا بہت سخت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’لڑکوں سے ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں، تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ انہیں پھانسی دے دی جائے ۔‘‘

ملائم سنگھ نے یہ بھی کہا کہ مرکز میں اقتدار سنبھالنے پر وہ قانون میں ترمیم کرکے جنسی زیادتی کرنے والے مجرموں کے لیے پھانسی کی سزا کو ختم کر دیں گے۔

انہوں نے یہ بات مرادآباد میں جمعرات کو ایک عوامی جلسے میں ممبئی شکتی ملز میں ہونے والے ریپ کے دو واقعات میں مجرموں کو عدالت کی طرف سے دی گئی سزائے موت کے حوالے سے کہی۔

درحقیقت ملائم سنگھ جنسی زیادتی جیسے نفرت انگیز عمل کے حوالے سے بھی ووٹ کی سیاست کر رہے تھے۔

ممبئی ریپ کیس کے تین مجرموں کو دی گئی سزائے موت پر سوال کرتے ہوئے ملائم سنگھ نے پوچھا ’’کیا ریپ کی سزا پھانسی ہونی چاہئے ....؟‘‘

لکھنؤ یونیورسٹی کے انگریزی سیکشن کی صدر پروفیسر نشی پانڈے کہتی ہیں کہ ایسا بیان دے کر لیڈر اپنی نفسیات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

پروفیسر نشی پانڈے نے کہا ’’عورتوں کے لیے ان کے حقیقی خیال کیا ہیں، اس پر سے آج پردہ ہٹ گیا ہے۔ اس سے زیادہ ان رہنماؤں سے اُمید بھی نہیں کی جا سکتی ہے ۔‘‘

پردیش کانگریس کے نائب صدر سبودھ شریواستو نے ملائم کے بیان کو ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘ قرار دیا ۔

انہوں نے کہا ’’آج جب ملک میں عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات میں روزبروز اضافے کے حوالے سے عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے، تو اس طرح کا بیان دے کر ملائم کن لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونا چاہتے ہیں ؟‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’سماجوادی پارٹی کا نام بدل کر ریپ پارٹی کر دینا چاہئے ۔‘‘

سبودھ شریواستو نے یہ بھی کہا کہ اسی ذہنیت کی وجہ سے آج ریاست میں غنڈہ راج قائم ہے۔

بہوجن سماج پارٹی کے ریاستی صدر رامچل راج بھر نے کہا کہ وہ ایسے بیان کی سخت مذمت کرتے ہیں۔

راج بھر نے کہا ’’ملائم سنگھ یادو کا وزیر اعظم بننے کا خواب، خواب ہی رہ جائے گا۔ معزز عدالت نے جو کیا ٹھیک کیا ۔‘‘

لکھنؤ یونیورسٹی طلبہ یونین کے سابق رکن اور بی جے پی کی ریاستی میڈیا سیل کی شریک انچارج آرتی اگروال نے ملائم سنگھ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ’’ریاست میں غنڈہ راج کے اضافے کے پس پردہ ملائم سنگھ یادو کی ایسی سوچ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اتر پردیش میں خواتین خود کو محفوظ تصور نہیں کرتی ہیں اور آئے دن ساتھ ریپ اور چھیڑچھاڑ کے واقعات رونما ہورہے ہیں، کم سن ہوں یا جوان، خواتین اور لڑکیوں کا سڑکوں پر چلنا دوبھر ہوگیا ہے۔‘‘

انہوں نے حیرت کے ساتھ سوال کیا کہ ’’یہ ملائم سنگھ کو ہوا کیا ہے؟ کبھی دہشت گردوں کو چھوڑنے کی بات کرتے ہیں اور کبھی ریپ کے مجرموں کو۔‘‘

تبصرے (0) بند ہیں