اسرائیل کا فلسطین پر مالی پابندیوں کا اعلان

12 اپريل 2014
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنجامن نتین یاہو، نے اسرائیلی آفیشلز سے کہا ہے کہ وہ فلسطینی ہم منصوبوں سے رابطہ نہ رکھیں۔ اے ایف پی
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنجامن نتین یاہو، نے اسرائیلی آفیشلز سے کہا ہے کہ وہ فلسطینی ہم منصوبوں سے رابطہ نہ رکھیں۔ اے ایف پی

تل ابیب: فلسطین نے حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے مزید حمایت کی درخواست کی ہے اور اس کے جواب میں اسرائیل نے فلسطین کو منتقل کی جانے والی ٹیکس کی رقم روک لی ہے۔ اس بات کا انکشاف ایک اسرائیلی آفیشل نے کیا ہے۔

اس پابندی سے فلسطینی حکومت کو اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے لاکھوں ڈالر کی کمی ہوگی اور اس کی مالی مشکلات میں شدید اضافہ ہوجائے گا۔

اسرائیل کی جانب سے عائد کی جانے والی یہ شدید مالی پابندیاں ہیں ۔ فلسطینی اسرائیلی کمپنیوں سے بجلی ، توانائی اور دیگر سروسز کے ضمن میں سینکڑوں ملین ڈالرز لیتے ہیں۔ ایک اسرائیلی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کیلئے ماہانہ جمع ہونے والے ٹیکس سے قرض کی رقم کاٹے گا ۔ اندرونی معاہدے کے تحت اسرائیل فلسطینیوں کیلئے اپنی کمپنیوں سے ماہانہ بنیادوں پر دس کروڑ ڈالر جمع کرتا ہے۔ اس کے بغیر فلسطینی اتھارٹی اپنے ہزاروں ملازمین کو تنخواہ نہیں دے پائے گی۔

اسرائیل نے یہ بھی نہیں بتایا کہ کتنی رقم اور کتنے عرصے تک روکی جائے گی۔

اس اعلان پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے فلسطینی لیبر منسٹر احمد مجلانی نے اس عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے معاشی سے ذیادہ سیاسی عمل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین صرف ایک اسرائیلی کمپنی سے چالیس کروڑ ڈالر مانگتی ہے۔

تفصیل کے مطابق اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ وہ 104 فلسطینی کو چار گروپوں میں رہا کرنا تھا۔ عین اسی وقت فلسطین نے کہا تھا کہ وہ اقوامِ متحدہ کی طرفسے ایک غیر رکن آبزرور ملک کے درجے پر دستخط کیلئے مہم نہیں چلائیں گے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل قیدیوں کے چوتھے گروپ کو رہا کرنے میں ناکام رہا تھا اور ساتھ ہی مشرقی یروشلم میں اسرائیلی آبادیوں اور گھروں کی تعمیر شروع کردی تھی اور یہ علاقہ فلسطینیوں کے لئے مستقبل کے دارالحکومت کا درجہ رکھتا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے اس کے بعد پندرہ بین الاقوامی معاہدوں کیلئے درخواست اور خطوط بھیجے اور اس کے بعد اسرائیل نے قیدیوں کی چوتھی کھیپ رہا نہیں کئے۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نتن یاہو نے اپنے تمام وزیروں کو حکم دیا ہے کہ وہ فلسطینی وزیروں اور افسروں سے کوئی رابطہ نہ کریں۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیلی آفیشلز نے وطنیہ نامی فلسطینی موبائل فون کمپنی کو سامان کی فراہمی بھی روک دی ہے۔

دوسری جانب سوئزرلینڈ حکومت نے کہا ہے کہ فلسطین فوجی قبضے اور جنگ کے اصولوں اور ضوابط کے کنوینشنز میں شرکت کرسکتا ہے۔

اس سے قبل فلسطینی اتھارٹی نے بین الاقوامی معاہدوں اور ٹریٹیز تک رسائی کیلئے رابطے کئے تھے۔

اسرائیل نے فلسطین کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کی عالمی سطح پر کوئی شناخت نہیں اور اس طرح سے امن مذاکرات مزید پیچیدہ ہوجائیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں