برفانی گاؤں جہاں سب بہت خوش ہیں

13 اپريل 2014
ولا ایسٹریلاس کا ایک منظر۔ بشکریہ وکی میڈیا کامنز
ولا ایسٹریلاس کا ایک منظر۔ بشکریہ وکی میڈیا کامنز
سخت برفانی ماحول میں واقع گاؤں کا پوسٹ آفس۔ بشکریہ وکی میڈیا کامنز
سخت برفانی ماحول میں واقع گاؤں کا پوسٹ آفس۔ بشکریہ وکی میڈیا کامنز
گاؤں کا ایک اور فضائی منظر۔ بشکریہ وکی میڈیا کامنز
گاؤں کا ایک اور فضائی منظر۔ بشکریہ وکی میڈیا کامنز

ولا ایسٹریلاس: انٹارکٹیکا کے اس چھوٹے سے گاؤں میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہے، ٹریفک کا شور بھی نہیں اور تنخواہوں کیلئے ملنے والے چیک بھی چلی کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں بہت اچھے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہاں موجود پینگوئن بہت خوبصورت ہیں۔

لیکن گاؤں لاس ایسٹریلاس کے لوگوں پر سردیوں کا موسم بہت گراں گزرتا ہے۔ سرد ہوائیں یہاں چنگھاڑتی رہتی ہیں اور درجہ حرارت منفی چالیس تک گرجاتا ہے۔ اس حالت میں گھر سے باہر نکل کر سانس لینا بھی دو بھر ہوجاتا ہے۔

اسی لئے یہاں آنے والوں کی تعداد بھی بہت کم ہے۔

' باقی براعظم ( کونٹی نینٹ) کے مقابلے میں یہاں رہنا تفریح سے بھرپور ہے،' لاس ایسٹریلاس کے ایک چھوٹے سے اسکول کے پرنسپل ہوزے کاریلان روزالیس نے کہا۔ ' مشکل یہ ہے کہ ہمیں کئی دن گھر میں بند رہ کر گزارنا ہوتے ہیں، مثلاً گزشتہ سردیوں میں موسم اتنا شدید تھا کہ ہم نے آٹھ دن گھر میں بند رہ کر گزارے۔'

لاس ایسٹریلاس، انٹارکٹک خطے میں موجود کنگ جارج جزیرے پر واقع ہے۔

یہ گاؤں 30 سال قدیم ہے اور اس کی آبادی 64 کے قریب ہے۔ یہ ایک پوسٹ آفس، ایک بینک، دس مکانات، ایک جمنازیم، ایک چھوٹے سے شاپنگ سینٹر اور ایک اسکول پر مشتمل ہے جس میں صرف چھ بچے پڑھتے ہیں۔ یہ پریذیڈنٹے ایڈورڈو فرائی چلین ایئر بیس کا حصہ ہے۔

یہاں رہنے والے افراد کا تعلق ان فوجیوں سے ہے جو فضائی اڈے پر ملازم ہیں۔

بھیڑ بھاڑ سے دور جنوب میں اس سرد اور خاموش جگہ پر گھر بنانے کی ایک وجہ یہاں کے جانور بھی ہیں۔ خاص طور پر نارنجی چونچ والے خوبصورت گینٹو پینگوئنز ہیں جو یہاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

اس جزیرے پر زندگی گزارنے کیلئے منظم ہونا ضروری ہے۔ مقامی مارکیٹ ہفتے میں صرف دو مرتبہ کھلتی ہے۔ مقامی افراد صابن، شیمپو اور ٹوتھ پیسٹ کا انتظام خود کرتے ہیں۔

روزالیس کا تعلق چلی کے شہر سان تیاگو کے جنوب سے ہے اور وہ لاس ایسٹریلاس میں دو سال سے اپنی بیوی کے ساتھ رہ رہے ہیں اور وہ اسکول میں پڑھاتے ہیں جہاں ان کے دو بچے بھی پڑھتے ہیں۔

' زندگی یہاں بہت پرسکون ہے، آپ کو چوری کا ڈر ہے نہ ہی ٹریفک کے شور کا اندیشہ۔' انہوں نے کہا۔

انٹارکٹیکا میں رہنا ایک کٹھن عمل ضرور ہوسکتا ہے ۔ لیکن چلی کے باشندوں کی اکثریت روزیلس کی نوکری پر رشک کرتے ہیں۔ وہ مرکزی ملک کے مقابلے میں پڑھانے والے عام ٹیچر کےمقابلے میں پانچ گنا زائد تنخواہ لے رہے ہیں۔

' یہاں آنے کیلئے ایک ملک گیر مقابلہ ہوتا ہے،' روزیلا کی بیوی ماریہ کرسٹینا نے بتایا۔

' پہلی شرط ہے کہ دونوں درخواست گزار ٹیچر ہوں اور میاں بیوی ہوں،' انہوں نے کہا ۔

دوسری شرط ماسٹر ڈگری ہے اور کم از کم ایک سال کا تجربہ ہوا۔ سنگل افراد زحمت نہیں کرتے کیونکہ صرف ایک ہی گھر ہے یہاں رہنے کیلئے۔

یہاں موجود اسکول 1985 میں کھولا گیا تھا اور تب سے اب تک 290 بچے یہاں سے تعلیم حاصل کرچکے ہیں جو چلی ایئرفورس کے افسران اور اسٹاف کی اولاد ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں