جادو کا چراغ: نبض کے بھید اور ایک برباد محبت

15 اپريل 2014
بادشاہ نے ملکہ کی جانب سے اپنی بحفاظت واپسی کی خوشی میں ہونے والی خلوت کی ملاقات کو منسوخ کرتے ہوئے لڑکی کے ساتھ رات بتائی-
بادشاہ نے ملکہ کی جانب سے اپنی بحفاظت واپسی کی خوشی میں ہونے والی خلوت کی ملاقات کو منسوخ کرتے ہوئے لڑکی کے ساتھ رات بتائی-

سوداگروں کے کارواں میں جس خوبصورت لیکن نیچ ذات لڑکی پر نگاہ پڑتے ہی بادشاہ اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھا، حاصل کر لی گئی تھی- خادمائیں، لڑکی کو شاہی خیمے کی طرف لے جا رہی تھیں اور کیمپ کے آخری کونے میں موجود خادموں کے خیمے میں کاتب نے داشتائی کے معاہدے کو تحریر کرنا شروع کر دیا تھا- وقت اتنا ہو چکا تھا کہ صبح ہو رہی تھی، بادشاہ نے شکار کے اختتام کا اعلان کرتے ہوئے اپنے دستے کو واپس شاہی محل کوچ کرنے کا حکم دیا-

ملکہ کو واقعے کی اطلاع مل چکی تھی- بادشاہ کے ایک معتمد نے، جو ملکہ کے ساتھ ولی عہد کو اپنی شاگردی میں لینے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا اسے شاہی محل میں پیغام بھجوایا تھا کہ جب سے بادشاہ نے لڑکی کو دیکھا ہے وہ اپنے آپے میں نہیں-

بادشاہ نے ملکہ کی جانب سے اپنی بحفاظت واپسی کی خوشی میں ہونے والی خلوت کی ملاقات کو منسوخ کرتے ہوئے لڑکی کے ساتھ رات بتائی-

صبح ملکہ نے لڑکی کو اپنی خدمت میں حاضر کرنے کے انتظامات کروائے تاہم اسے پتہ چلا کہ وہ پچھلی رات کو بیمار پڑ گئی ہے- شاہی طبیب اس کی بیماری کی تشخیص میں ناکام رہا اور جب اس کی حالت مزید بگڑ گئی تو بادشاہ نے اس کے پاس سے اٹھنے سے انکار کر دیا اور اسی کے کمرے میں اپنا قیام کر لیا-

بادشاہ نے جس بیچینی اور اضطراری حالت میں لڑکی کے معاملے میں فیصلے لئے وہ کسی بھی طرح قابل تحسین نہیں کہلائے جا سکتے کہ ان سے تخت کے معاملات متاثر ہونا شروع ہو گئے تھے- شرفاء اور امراء نے آپس میں صلاح مشورہ کیا اور پوشیدہ بیماریوں کی تشخیص میں ماہر ایک نامور طبیب کو لڑکی کے پاس بھیجا-

بوڑھے حکیم نے لڑکی کا معائینہ کیا، شاہی طبیب سے بیماری کے بارے میں تفصیلات حاصل کیں اور چند لمحے لڑکی کے ساتھ گزارنے کی اکیلے میں گزارنے کی اجازت مانگی-

لڑکی کو اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ بیماری کے علاج کیلئے کسی کے پیدائشی علاقے کے جغرافیے کا جاننا ضروری ہے، اس نے لڑکی سے اس کی زندگی اور جہاں وہ رہ چکی ہے ان جگہوں کے بارے میں پوچھا- یہ جاننے کے بعد کہ لڑکی نے ساری زندگی سمرقند میں گزاری ہے، حکیم نے ٹیکس جمع کرنے والے سپرنٹنڈنٹ کو بلوایا-

لڑکی کی نبض ہاتھ میں لے کر حکیم نے ٹیکس انسپکٹر کو پردے کے پیچھے سے سمرقند کے تمام شہروں اور علاقوں کے نام لینے کو کہا- اس کے بعد حکیم نے شاہی جاسوسوں کے سربراہ کو بلوایا- جاسوس سے بھی ایک مخصوص شہر کے علاقوں اور سڑکوں کے نام لینے کو کہا گیا-

اسی رات، ایک شاہی جاسوس کو جو ایک نعل لگانے والے کے طور پر ایک چھوٹے سے قصبے میں رہ رہا تھا، شاہی محل سے فوری بلاوا آیا- یہ سوچتے ہوئے کہ تخت کے خلاف کوئی سازش بے نقاب ہوئی ہے جس کے سرے اس کے علاقے سے ملتے ہیں اور اب خطرے سے آگاہ کرنے میں ناکامی کے دوش میں اس کا سر قلم کر دیا جائے گا، اس نے اپنی جانب سے آخری بار اپنے گھر والوں سے اجازت چاہی اور بھاری قدموں سے اپنے سفر کا آغاز کر دیا-

ذرا اس کی حالت کا تصور تو کریں کہ شاہی محافظوں کے سربراہ یا جلاد کے بجائے اس کی ملاقات ایک بزرگ اور دانا حکیم سے ہوتی ہے جس نے صرف آدھے گھنٹے تک اسے اپنے ساتھ رکھا- ایک پردے کے پیچھے کھڑا کر کے اسے اپنی یادداشت سے ایک قصبے کی مختلف سڑکوں اور سمرقند کے ایک مخصوص بازار سے وابستہ مختلف ہنرمندوں، دستکاروں اور پیشوں کی نمائندگی کرنے والوں کے نام دہرانے کو کہا گیا-

اس کے بعد، اس کام نام معلوم کرنے اور ایک مخصوص سڑک پر رہنے والے ایک سنار کے بارے تفصیلات جاننے کے بعد، حکیم نے اسے جانے کی اجازت دے دی-

لڑکی کی پیلاہٹ سے یہ تشخیص کرنے کے بعد کہ وہ محبت کی ماری ہے حکیم نے اس کے محبوب کی شناخت کرنے کی ٹھانی- ہر بار کسی بھی مخصوص نام پر اگر لڑکی کی نبض میں تبدیلی ہوتی تو حکیم اس نام کو نوٹ لیتا اور اس طرح اس نے یہ معلوم کر لیا کہ کس شہر کے کس محلے میں اس لڑکی کا محبوب رہتا تھا- اسی طرح، مختلف پیشوں اور ایک بازار سے وابستہ دستکاروں اور ہنرمندوں کے ناموں کے دہرانے سے اس نے یہ معلوم کیا کہ لڑکی ایک سنار کی محبت میں گرفتار ہے جس کی ایک مخصوص بازارمیں ایک دوکان ہے-

اس بار حیران ہونے کی باری سنار کی تھی جسے شاہی محل سے اس کی محبوبہ کا بلاوا آیا- جو چیز زیادہ حیرانی کی تھی وہ وہ تحائف تھے جو خود بادشاہ نے اس ہرکارے کے ساتھ بھیجے تھے جو پیغام لایا تھا- جب سے اسے پتہ چلا تھا کہ بادشاہ نے اس کی محبوبہ کو خرید لیا ہے وہ اپنے دن اداسی اور بے چینی میں گزار رہا تھا- کوئی لمحہ ضائع کے بغیر وہ چل پڑا-

محل پہنچنے پر اس کی ملاقات دو امراء اور ایک بوڑھے حکیم سے ہوئی جنہوں نے اس کی محبوبہ سے ملاقات کروائی- لڑکی کو پتہ چلا کہ بادشاہ نے یہ جاننے کے بعد کہ وہ سنار سے محبت کرتی ہے، اسے آزاد کر دیا ہے-

جوان جوڑے کی شادی ہو گئی اور انہیں شاہی محل میں رہنے کیلئے کوارٹر دے دیا گیا- سنار کو شاہی نوکری مل گئی اور بادشاہ نے دونوں کے لئے وظیفہ مقرر کر دیا- جوان جوڑے کی خوشیاں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا- چند ہی مہینوں میں لڑکی مکمل طور پر صحتیاب بھی ہو گئی-

لیکن لڑکی کی صحتیابی کے ساتھ ہی بدقسمتی سے جوان سنار ایک پراسرار بیماری میں مبتلا ہو گیا جس میں اس کے اعضاء متاثر ہونا شروع ہو گئے- اس کی جلد کالی پڑنے لگی اور اس کے جسم سے انتہائی ناگوار بو آنے لگی- اس کی پیار کرنے والی بیوی نے بیماری میں اس کی تیمارداری کی لیکن اس کی حالت نہ سنبھلی- جیسے جیسے اس کی حالت بگڑنے لگی، لڑکی نے بھی اس پاس آنا جانا کم کر دیا-

اس دوران محل میں زندگی اپنی رفتار سے جاری تھی- ملکہ کی توجہ بھی کسی اور جانب تھی اور ویسے بھی وہ اپنے معتمد خاص کو ولی عہد کا اتالیق مقرر کروانے میں کامیاب ہو چکی تھی- شاہی طبیب اور بوڑھا حکیم اکثر ایک ساتھ، طبی معاملات پر گفتگو کرتے اور آپس میں سرگوشیوں میں باتیں کرتے دکھائی دیتے-

اگلے ہفتے جب سنار کی طبیعت مزید بگڑ گئی تو بوڑھا حکیم اسے دیکھنے گیا- تقریباً اسی وقت ایک امیر کی جانب سے بادشاہ کی خدمت میں ایک اعلیٰ نسل کا گھوڑا پیش کیا گیا جسے اس نے کسی فوجی مہم میں حاصل کیا تھا- میدان میں گھوڑے کو جانچنے کے لئے بادشاہ نے شکار پر جانے کا اعلان کیا اور پورا محل شکار کی تیاریوں کے شور سے گونجنے لگا-

سنار مر گیا اور محل سے شکاری مہم کی روانگی سے چند گھنٹے قبل اسے شہر کی دیوار کے باہر خاموشی سے دفنا دیا گیا-

اکتالیس روز بعد، جب بادشاہ شکار سے لوٹا تو ملکہ نے اس کے اعزاز میں جشن منانے کا حکم دیا- بادشاہ نے جشن میں شرکت تو کی لیکن جلد ہی وہ اپنے کمرے کی طرف چلا گیا جہاں وہی لڑکی اس کی منتظر تھی جسے اس نے ایک اور شکاری مہم میں دیکھا تھا اور اس کی محبت میں مبتلا ہو گیا تھا-

انگلش میں پڑھیں


مشرف علی فاروقی ایک لکھاری، نوولسٹ اور ٹرانسلیٹر ہیں-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

تبصرے (0) بند ہیں