سارے جہاں سے مہنگا - ریویو

اپ ڈیٹ 15 اپريل 2014
سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

مہنگائی آج کل ہر مڈل کلاس گھرانے کا دکھڑا- روز بروز بڑھتی مہنگائی نے کم آمدنی والے گھرانوں کی کمر توڑ ڈالی ہے خصوصاً ان گھروں میں جہاں کمانے والا صرف ایک ہو۔

ہریانہ کا پتن پال، مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا ایک ایسا ہی شخص ہے جو چار افراد پر مشتمل خاندان کا اکیلا کمانے والا ہے- اشیائے خور و نوش کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پتن پال کا چین و سکون چھین لیا ہے- ایک طرف دال ہے جس کی قیمت ہر ہفتے بڑھ جاتی ہے دوسری طرف بابو جی ہیں جو اس بات پر ناراض بیٹھے ہیں کہ بیٹا انہیں مٹن لا کر نہیں کھلاتا- بیچارہ پتن پال کرے تو کیا کرے- اسی ادھیڑ بن میں اسے ایک انوکھا آئیڈیا سوجھتا ہے- وہ اپنے نکھٹو بھائی گوپال کے نام پر بینک سے ایک لاکھ کا قرضہ لیتا ہے- وہ اس قرضے کا کیا کرتا ہے؟ اس کی انوکھی سکیم کا کیا انجام ہوتا ہے؟ وہ اس میں کامیاب ہو بھی پاتا ہے یا نہیں؟ یہ سب آپ کو انشل شرما کی ڈائریکشن، ' سارے جہاں سے مہنگا ' دیکھنے کے بعد ہی پتا چل سکتا ہے۔

انکم تو سالی بانجھ ہوئی مہنگائی کے پاؤں ہیں بھاری ہر روز جنے یہ پرائس نیا ہر روز بڑھے لاچاری

فلم کا ٹائٹل اور اوپننگ سونگ سنتے ہی آپ کواس کا موضوع تو سمجھ آ ہی جائے گا - 'سارے جہاں سے مہنگا'، طنز و مزاح کے پردے میں مہنگائی کے ستائے ہوئے گھرانوں کی کہانی ہے- حالانکہ یہ ایک کم بجٹ پر بنائی گئی فلم ہے لیکن اس کی کہانی عمدہ اور مزاح صاف ستھرا ہے، فلم کو سستی شہرت دینے کے لئے اس میں کہیں بھی لچرپن کا استعمال نظر نہیں آتا۔

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

مہنگائی کا موضوع اکثر ٹی وی ڈراموں میں استعمال کیا جاتا ہے ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی فلم میں اسے موضوع بحث بنایا گیا ہو، ویسے بھی فلم بین روز مرّہ کے معمولات بھلانے کے لئے ہی تو سنیما گھروں کا رخ کرتے ہیں لیکن انہیں وہاں بھی اگر اپنے ہی گھر کے مسائل دیکھنے کو ملیں تو کیا خاک مزہ آۓ گا! تو جناب اگر سماجی فلم بنانی ہے تو ایسی بنائی جائے جس کی کہانی اور اداکاری دونوں اچھی ہو اور طنز و مزاح کے پیچھے عوام اور سرکار تک اصل پیغام بھی پہنچ جائے۔

'سارے جہاں سے مہنگا ' میں ایک اچھوتا خیال پیش کیا گیا ہے کہ کس طرح 'جگاڑ' کر کے ایک مڈل کلاس آدمی مہنگائی کا توڑ نکالتا ہے- لیکن اس فلم میں یہی ایک خوبی نہیں ہے- ذرا غور کیا جائے تو فلم میں بہت سے سیاسی و سماجی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے- عوامی لیڈروں کی بددیانتی، جہیز کی لعنت، بجلی کی چوری، رشوت ستانی، چند نوالوں کی خاطر اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹتی مڈل کلاس- ایک اور نکتہ جسے مبہم انداز میں پیش کیا گیا، وہ سرکاری اداروں کی کارکردگی ہے، یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ ملک میں گرانی کی سب سے بڑی وجہ امیر طبقے کی بدعنوانی ہوتی ہے لیکن سرکاری ادارے ان کے خلاف کوئی کارروائی کرتے نظر نہیں آتے جو کروڑوں کا خوربرد کر گزرتے ہیں جبکہ پتن پال کی مہنگائی سے بچنے کی 'جگاڑ' پر اسی محکمے کی مستعدی دیکھنے لائق ہوتی ہے- صاف ظاہر ہے سرکاری اداروں کا سارا زور غریب عوام پر چلتا ہے، خیر یہ بحث بہت طویل ہے، اس پر جتنی بات کی جائے کم ہے۔

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

اب آتے ہیں فلم کے کرداروں کی طرف: پتن پال (سنجے مشرا) مرکزی کردار کی حیثیت سے پوری فلم پر چھاۓ رہے- فلم کا پلاٹ انہی کے گرد گھومتا ہے اور وہ بھی اپنے کردار سے وابستہ توقعات پر پورے اترتے نظر آتے ہیں- فلم کے آخری چند منٹ میں پتن پال نے جس دردناک انداز میں مڈل کلاس طبقے پر گزرنے والی اذیتوں کی عکاسی کی ہے وہ پوری فلم کا نچوڑ ہے- ان ڈائیلاگ کو سننے کے بعد فلم بین کو یقیناً یہ اپنی کہانی محسوس ہونے لگے گی- فلم میں پتن پال کی بیوی 'نوری' کا کردار ادا کیا ہے 'پراگتی پانڈے' نے جو گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بیوٹی پارلر چلاتی ہے، ویسے تو وہ ایک سیدھی سادی، صابر سی عورت ہے لیکن مزہ تب آتا ہے جب وہ پارلر میں خواتین گاہکوں کو چاپلوسی کے ساتھ 'گھیرنے' کی کوشش کرتی ہے، مجھے یقین ہے کہ اکثر خواتین اس تجربے سے گزری ہوں گی۔

دیگر اہم کرداروں میں پتن پال کے بابوجی ناگپال (وشوا موہن بدولا) ایک اکھڑ مزاج شخص ہیں جو اپنے بڑے بیٹے سے سخت نالاں رہتے ہیں- ایسے کردار ہمیں اپنے معاشرے میں بہت نظر آتے ہیں- پتن پال کا نالائق، نکھٹو بھائی گوپال (رانجن چبرّا) جسے عشق کی بیماری لاحق ہے- پتن پال کا دوست ودپال (سیتارام پنچال) جو سائیکلوں میں پنکچر لگاتا ہے اور محلے کے فارغ لوگوں کو حکومتی بدعنوانی پر بھاشن دیتا رہتا ہے- گو کہ یہ تمام کردار فلم کا اہم جزو ہیں لیکن لون انسپکٹر (ذاکر حسین) کی طنزیہ اداکاری نے فلم کو بہترین ٹوئسٹ دیا ہے- پتن پال اور لون انسپکٹر کے بیچ رسہ کشی ہی فلم کی اصل جان ہے۔

سکرین شاٹ
سکرین شاٹ

فلم کی سٹوری انوکھی اور دلچسپ رہی، اداکاری بہترین، سکرین پلے، ایڈیٹنگ سب ہی اچھے رہے بس ڈائریکشن میں انشل شرما تھوڑا ڈگمگا گئے خاص کر فلم کے اختتام میں یوں لگتا ہے اسے جلد بازی میں لپیٹنے کی کوشش کی گئی ہے، ایک کے بعد ایک تمام کردار آتے چلے گئے اور ایک بھیڑ سی اکھٹی ہو گئی- فلم کا اختتام اتنے لوگوں کو اکھٹا کیے بغیر بھی ممکن تھا- فلم میں دوسری چیز گوپال اور سمن (دیشا پانڈے) کا معاشقہ تھا جس کا فلم سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا، محبت کے چکّر میں پڑے بغیر بھی گوپال خاصا نالائق تھا، یوں لگتا ہے فلم کا دورانیہ بڑھانے کے لئے گوپال - سمن افیئر کا اضافہ کیا گیا ہے- اس کے علاوہ سنیماٹوگرافی میں بھی فلم مار کھا گئی ہے، ایک نچلے طبقے کے پسماندہ محلے کا تاثر ٹھیک طرح جم نہیں سکا، فلم چند ہی لوکیشن تک محدود رہی۔

فلم میں گیت کم ہیں البتہ مناسب ٹائمنگ کے ساتھ دیے گئے ہیں خصوصاً ٹائٹل سونگ بالکل صحیح نشانے پر بیٹھنے والے تیر کی طرح ہے- میرا مشورہ ہے کہ اگر فلم سے لطف اندوز ہونا ہے تو ٹائٹل سونگ کو نظر انداز نہ کریں۔

'سارے جہاں سے مہنگا'، ریول فلمز پرائیویٹ لمیٹڈ کے بینر تلے اشوک پانڈے کی پروڈکشن ہے- کہانی روپیش تھپلیال اور وجے منرال کی ہے- موسیقی منش جے ٹیپو کی ہے جبکہ گیت نگار نوین تیاگی ہیں- نمایاں گلوکاروں میں سونو نگم، شریا گھوشل اور مکّا سنگھ وغیرہ ہیں۔

فلم کا دورانیہ ایک گھنٹہ اڑتالیس منٹ ہے- اس کی ریلیز آٹھ مارچ سنہ دو ہزار تیرہ کو ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں