اسلام آباد: پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کا کہنا ہے کہ مقدمہ میں پروسیکیوٹر کی تقرری سے متعلق فیصلہ 18 اپریل کو سنایا جائے گا۔

آج ہونے والی سماعت میں سابق صدر کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ مشرف کے ساتھ تین نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کے نفاذ میں شریک دیگر افراد کو بھی اس مقدمے میں نامزد کیا جائے۔

جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی خصوصی عدالت میں سماعت کی۔

دوران سماعت پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں کہا کہ پروسیکیوٹر کی تقرری سے متعلق فیصلہ ابھی تک نہیں سنایا گیا

ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آئندہ سماعت میں گوہاہی سے پہلے ہی فیصلہ سنا دیا جائے گا، لہذا آج فیصلہ سنا دینا چاہیے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ خصوصی عدالت میں متفرق درخواستوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

دلائل سننے کے بعد جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ پروسیکیوٹر کی تقرری سے متعلق 18 اپریل کو فیصلہ سنا دیا جائے گا۔

سماعت کے موقع پر فروغ نسیم درخواست کی کہ پرویز مشرف کے ساتھ 3 نومبر کو ایمرجنسی کے نفاذ میں شریک دیگر افراد کو مقدمے میں شامل کیا جائے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ عالمی قوانین کی روشنی میں کسی الزام پر صرف ایک ملزم کو نشانہ نہیں بنایا جا سکتا، تین نومبر کے نوٹیفکیشن میں جن افراد سے مشاورت کا ذکر ہے ان کے نام نوٹس جاری کرکے ٹرائل کیا جائے

ان کا مزید کہنا تھا کہ تفتیشی رپورٹ میں ان افراد سے انکوائری کا کوئی ذکر نہیں کیا، ایف آئی اے کی تفتشی رپورٹ بھی سامنے نہیں لائی گئی۔

ان کا مزید کہنا تھ کہ انکوائری ٹیم کے ایک رکن حسین اصغر نے اختلافی نوٹ لکھا جسے شامل نہیں کیا گیا، استغاثہ بتائے یہ نوٹ چھپانے کا مقصد کیا ہے۔؟

فروغ نسیم نے عدالت سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ تحقیقاتی رپورٹ اور اختلافی نوٹ کی نقل فراہم کرنے کا حکم دے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Apr 15, 2014 11:05pm
اول تو یہ مقدمہ شروع نہیں ھونا چاھیےتھا اور جب شروع ھوا ھے تو اب مقدمہ چلانا ھو گا اور مقدمہ کو منطقی انجام تک پہنچانا ھوگا اب جبکہ سابقہ ڈکٹیٹرپر ہاتھ ڈالا گیا ھے تو اسکو انجام تک پہنچاناپڑےگا ورنہ عام لوگوں کا قانون و انصاف سے اعتماد ہمیشہ کیلئے اٹھ جائیگا اور عوام کا یہ دعوہ حقیقت بن جائیگا کہ قانون سب کیلئے نہیں اگر مقدمہ نہیں چلا تو یہ موجودہ حکمرانوں کی سیاسی موت ھوگی اور سیاسی دانوں کی ہار ھوگی دوسرے اداروں حاص کر عدلیہ کو بھی قانون کی بالادستی قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ھوگا اسطرح میڈیا پر بھی باری زمہ داری عائد ھوتی ھے سیاس دانوں کو عسکری بالادستی کو حتم کرنے کیلئے اس موقعہ سے بھرپور فائدہ اٹھانا ھوگاحکومت کے ساتھ دینا ھوگا بصورت دیگر‎ ‎فوج کی بالادستی ہمیشہ کیلئے قائم ھوجائیگی