نئی دہلی: ہندوستان کی سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں خواجہ سراؤں کو باضابطہ طور پر تیسری صنف تسلیم کرتے ہوئے ان کے لیے الگ درجہ بنا دیا ہے۔

اس سے پہلے خواجہ سرا خود کو مرد یا خاتون لکھوانے پر مجبور کیے جاتے تھے۔

منگل کو جسٹس کے ایس رادھا کرشنن نے سپریم کورٹ میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا ' خواجہ سراؤں کو تیسری جنس کے طور پر تسلیم کیا جانا نا صرف سماجی و طبی معاملہ ہے بلکہ یہ انسانی حقوق کا بھی مسئلہ ہے'۔

عدالت سے ریاست اور وفاقی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ خواجہ سراؤں کو غیر جانبدرانہ تیسری جنس کے طور پر شناخت کرتے ہوئے انہیں انڈیا میں دوسرے اقیلتی گروہوں کی طرح فلاح و بہبود کی سکیموں میں شامل کریں۔

کیس کی سماعت کرنے والے دو رکنی بینچ میں شامل رادھا کرشنن نے مزید کہا ' اس ملک کے شہری ہونے کے ناطے خواجہ سرا تعلیم اور دیگر تمام حقوق کے حقدار ہیں'۔

یاد رہے کہ قانون کی روشنی میں خواجہ سرا برادری کو برابری کے حقوق دلانے کے لیے 2012 میں مشہور رضاکار خواجہ سرا لکشمی نارائن تری پاتھی اور دوسرے درخواست گزاروں نے یہ کیس فائل کیا تھا۔

تری پاتھی نے فیصلہ کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ سرا کافی عرصے سے قدامت پسند ملک میں تعصب اور جہالت کا سامنا کر رہے تھے۔

نئی دہلی میں عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں ان کا مزید کہنا تھا ' آج پہلی بار مجھے ہندوستانی ہونے پر فخر ہو رہا ہے'۔

'آج میں اور میری بہنیں خود کو سچا ہندوستانی سمجھ رہی ہیں، سپریم کورٹ کی جانب سے ملنے والے حقوق کے بعد ہم بہت زیادہ فخر کر رہے ہیں'۔

یہ فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا جب اسی عدالت نے گزشتہ دسمبر میں ہم جنس پرستی پر پابندی کو بحال کر دیا تھا۔

مختلف حلقوں نے اس فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے الزامات لگائے کہ ملک کو انیسویں صدی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ 2009 میں دہلی ہائی کورٹ نے ہم جنس پرستی کو یہ کہہ کر قانونی قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں