کیا ہمیں یو بی اے سے بھی مذاکرات کرنے چاہئیں؟

17 اپريل 2014
ایک فریق کیلئے مذاکرات دوسرے فریق کو دروازے ہی سے چلتا کر دینا غیر یکساں لابنگ کا غماز ہے- فائل فوٹو۔۔۔۔
ایک فریق کیلئے مذاکرات دوسرے فریق کو دروازے ہی سے چلتا کر دینا غیر یکساں لابنگ کا غماز ہے- فائل فوٹو۔۔۔۔

ذرا وہ تمام سبق یاد کریں جو طالبان کے ساتھ ہونے ہمارے انتہائی کٹھن مذاکرات نے ہمیں سکھائے ہیں اور انہیں اس دوسرے عفریت کے حوالے دیکھیں جو اب ہمارے سروں پر منڈلانے لگا ہے، وہی جس نے حالیہ دنوں میں ہمارے شہریوں کے خلاف دو جان لیوا حملے بھی کئے ہیں-

بھاری دل کے ساتھ جب میں روزانہ کی طرح اپنے اسپتال پہنچا تو وہاں میں نے نیوز وینز کی ایک لمبی لائن ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کے باہر پارک دیکھی اور وہیں مجھے پتہ چلا کہ یو بی اے (UBA)، یونائیٹڈ بلوچ آرمی کا مخفف ہے- مجھے ڈر ہے کہ جلد کی UBA ٹرم بھی پاکستانی بول چال کا اسی طرح حصہ بن جائے گی جیسے کہ خوفناک طالبان یا TTP بن چکے ہیں-

اپنے ستم گروں کے ساتھ ہماری طویل مشغولیت نے ہمیں سکھا دیا ہے کہ ہم خود ہی دہشت گرد حملے چاہتے ہیں، یا تو مغرب کے ساتھ اتحاد کر کے یا پھر دہشت گرد آؤٹ فٹس کو نظرانداز یا ان کے خلاف فوجی آپریشن کر کے-

ہمیں یہ بھی سبق ملا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی کاروائیوں میں ہلاک ہونے والے (یا لاپتہ ہونے والے) ہر بے گناہ کے بدلے دس دیگر پیدا ہو جاتے ہیں-

ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جن عسکریت پسندوں کے خلاف ہم لڑ رہے ہیں اصل میں تو ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں جو کہ ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے ہمارے اپنے رویئے کی وجہ سے ہم سے نفرت کرنے لگے ہیں اور گو کہ ان کے اعمال قابل مذمت سہی پر ان کی نفرت اتنی بھی غلط نہیں-

ہر بار، جب حملے میں ہونے والے دھماکے سے اٹھنے والے دھویں کے بادل چھٹتے ہیں اور اس کے نتیجے میں پھیلنی والی تباہی سب کے سامنے روشن ہو جاتی ہے، ہمیں کہا جاتا ہے کہ حملہ دہشت گرد تنظیموں کو بدنام اور مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے- 'بدنام'، جیسے ان کے کام تو بہت ہی اعلیٰ اور ان کی ساکھ بہت ہی اچھی ہے اور جسے بنانے کے لئے انہوں نے دن رات محنت کی ہے-

ایک فریق کے لئے مذاکرات کی میز پر چائے بسکٹ پیش کرتے ہوئے دوسرے فریق کو دروازے ہی سے چلتا کر دینا یا تو غیر یکساں اہمیت یا پھر غیر یکساں لابنگ کا غماز ہے-

میری اسسمنٹ کے مطابق، بی ایل اے (BLA)، بی آر اے (BRA) اور یو بی اے (UBA) جیسی علیحدگی پسند تنظیمیں یوں تو مختلف وجوہات کی بنا پر لڑکھڑا سکتی ہیں لیکن اس کی سب سے نمایاں وجہ ایک بھاری بھرکم پی آر کمپین ہو گی- جب تک مرکزی سیاسی دھارے کے ساتھ یہ تنظیمیں منسلک نہیں ہوں گی اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ یہ تنظیمیں غیرمتعلقہ اہمیت کی سائے میں دوبارہ گم ہو جائیں جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے-

جہاں ایک طرف ٹی ٹی پی ایک دہشت گرد تنظیم سے ایک قانونی 'متنازعہ حکمت عملی کی حامل سیاسی پارٹی' بننے کا سفر بہت تیزی سے طے کر رہی ہے وہیں بلوچ علیحدگی پسندوں کے پاس بہت کم ایسے حمایتی موجود ہیں جو عوام کو ان کی طرف کھینچ سکیں یا ان کے لئے ہمدردی پیدا کر سکیں-

ویسے دیکھا جائے تو بلوچ دہشت گرد گروپوں کا دفاع نسبتاً زیادہ آسان ہونا چاہئے- ایک تو یہ کہ انہیں ملک کے آئین میں بنیادی ترمیم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں اور دوسرے یہ کہ وہ صرف اس خطے پر اپنی شرائط لاگو کرنا چاہتے ہیں جس کی آزادی کا وہ دعویٰ کرتے ہیں-

ذاتی طور پر میں نہیں سمجھتا کہ ان دونوں کے خلاف عوام کے غم و غصے میں کمی آنی چاہئے- وقت آ گیا ہے کہ دہشت گرد بھی جان لیں کہ جب کبھی وہ ایک ایسے بیگناہ شہری کو ہلاک کرتے ہیں جو گھر سے سبزی فروٹ لینے بازار آیا تھا، وہ اپنا یہ حق اسی وقت کھو دیتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی درد بھری داستان سنائیں- مجھے یہ ظاہر کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں کہ چونکہ دہشت گردوں کے ساتھ بھی کبھی غلط ہوا تھا اور اس وجہ سے وہ انسانوں کی طرح عمل کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں-

تاہم، طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کے حمایتیوں کی جانب سے UBA کے خلاف ردعمل کا مجھے شدت سے انتظار ہے-

کیا خیال ہے اگر جارحیت روکنے کے بدلے ہم قلات کا کنٹرول چھوڑ دیں؟ جذبہ خیر سگالی کے اظہار کے لئے سولہ بلوچ علیحدگی پسندوں قیدیوں کی رہائی کے بارے میں کیا کہتے ہے؟

UBA کو منانے کے لئے لاپتہ افراد سے متعلق معلومات کو لے کر انہیں اور ان ان کے اتحادی گروپوں کی جانب سے ٹرینوں اور گیس پائپ لائنز پر حملے رکوانے کے لئے مذاکرات کے بارے میں کیا خیال ہے؟

میں دل سے تو یہ چاہتا ہوں کہ ایسا کچھ بھی نہ ہو کیونکہ ہم اس بات کے بالکل متحمل نہیں ہو سکتے کہ یہ سب کر کے بھی ان دونوں دہشت گرد گروپوں کو ایک ساتھ خوش رکھ سکتے ہیں-

انگلش میں پڑھیں

لکھاری راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر ہیں جو زیادہ تر سائنس اور روزمرہ کے سماجی مسائل کے بارے میں لکھتے ہیں-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

تبصرے (0) بند ہیں