لوگ بڑے، چھوٹی سوچ

17 اپريل 2014
سول ملٹری عدم توازن کو ٹھیک کرنے کے لئے مجموعی طور پر سازگار سماجی اور سیاسی ماحول پیدا کرنا سیاستدانوں کا کام ہے نہ کہ جرنیلوں کی ذمہ داری- اے پی پی فوٹو۔۔۔۔
سول ملٹری عدم توازن کو ٹھیک کرنے کے لئے مجموعی طور پر سازگار سماجی اور سیاسی ماحول پیدا کرنا سیاستدانوں کا کام ہے نہ کہ جرنیلوں کی ذمہ داری- اے پی پی فوٹو۔۔۔۔

آخر وہ کیا ہو گا جو ہماری سول اور فوجی قیادت کو اپنے اہنکار، خود پسندی اور عزت اور غیرت کے غلط تصوروں کے جنون سے باہر نکال سکے- صورتحال اس سے زیادہ مضحکہ خیز نہیں ہو سکتی-

جوہری طاقت والی ریاست جس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی افواج میں سے ایک موجود ہے، اپنے ہی گھر میں پروان چڑھائے گئے دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے-

اب ایک طرف تو ہمارے وہ نام نہاد 'اسٹیٹسمین' (STATESMEN) اور جنرلز ہیں جو ہمارے شہریوں اور فوجیوں کو ذبح کرنے والوں کی خوشنودی کیلئے جھکے جا رہے ہیں اور دوسری طرف یہی دانائی کے پیکر، اپنے ابال کو بھی قابو نہیں کر پا رہے اور اپنے اپنے متعلقہ اداروں یعنی پارلیمنٹ اور فوج کی عزت و وقار کے ترانے گا رہے ہیں-

کیا پارلیمنٹ کی بالادستی اپنے اراکین کی گرجتی پرستی تقاریر سے مضبوط ہوئی ہے؟ کیا کمانڈوز کے درمیان اور تالیوں کے شور میں آرمی چیف کے انتباہ سے، فوج کا وقار بحال ہو گیا؟ ہم تشدد کے نتیجے میں 50،000 سے زیادہ کھو چکے ہیں- ہمارے ایف سی کے اہلکاروں کے سروں کو کاٹ کر فٹ بال کے طور پر استعمال کیا گیا- یہ چاہے فاٹا ہو، کراچی، اسلام آباد کی ضلعی عدالتیں یا راولپنڈی کی سبزی منڈی، ریاست کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی- اور اس کے بعد بھی ہمارے ارباب اختیار اپنی غفلت سے جاگ کر ہمارے وجود کو لاحق خطرے کی جانب توجہ مرکوز نہیں کر رہے-

یہاں اصولوں کا تو سوال ہی نہیں- ہمارا آئین واضح اور مکمل طور پر فوج کو سویلین کنٹرول میں دیتا ہے- جمہوریت کے حامی یا ہماری بساط کی مانند تاریخ کے طالب علم کے طور پر کسی کو بھی اس بارے میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ فوج کا سیاسی معاملات میں کوئی کام نہیں- تاہم، اپنی تاریخ میں اب تک زیادہ تر تو خاکی پہننے والے براہ راست حکمران رہے ہیں یا پھر پردے کے پیچھے بیٹھ دوریاں ہلاتے رہے ہیں- لہٰذا سوال یہ نہیں کہ آیا تاریخی سول ملٹری عدم توازن کو درست کیا جائے بلکہ ایسا کرنے کے لئے کون سا طریقہ سب سے بہتر ہو گا-

اگر ہر جنرل کے دل میں آرٹیکل 6 کا خوف، فوجی بغاوت کا رستہ روکنے کا اتنا ہی مستند طریقہ ہوتا تو کیا 1973 کے بعد بھی ہمارا ایک منتحب وزیر اعظم پھانسی چڑھتا اور ایک جلاوطن ہوتا؟

آرٹیکل 6، جمہوریت کے تحفظ اور دفاع کا ضامن ہوتا تو کیا ایک حاضر سروس آرمی چیف اسی آرٹیکل 6 کے تحت ایک سابق آرمی چیف کے مقدمے کی سماعت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے واضح الفاظ میں خبردار کرتا کہ فوج "دلجمعی کے ساتھ اپنے ادارے کے وقار اور ناموس کی حفاظت کرے گی"؟

ہمارے ادارہ جاتی عدم توازن کو ٹھیک کرنے کے لئے ایسے باصلاحیت، پراعتماد اور پرعزم سول اور ملٹری لیڈرز چاہئیں جو دونوں جانب سے صورتحال کے مطابق ضروری سمجھوتے کرنے کی جرات اور حوصلہ رکھتے ہوں-

ایک ایسی فوج جو اپنے مقدس گائے کے اسٹیٹس کو چیلنج کرنے والی کسی بھی چیز کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتی ہے اور اپنے ادارے کے مفادات کے خلاف گردانتی ہے ایک ایسی فوج میں تبدیل کر دینا جو آئین اور قانون کو اپنی مرضی سے حرف آخر مانے اور جس کے پاس اپنے بچاؤ کا کوئی نظام نہ ہو، آسانی سے نہیں ہونے والا- اس کے لئے طرزِ عمل اور ذہنیت میں تبدیلی لانا ہو گی-

ایسی تبدیلی کی قیادت ان جرنیلوں کو کرنا ہو گی جو اس بات پر یقین رکھتے ہوں کہ پاکستان کا مستقبل، قومی سلامتی اور قومی مفادات (جنہیں بنانے میں خود فوج کا کردار ہے) کے غلط تصورات سے چھٹکارا پانے سے مشروط ہے اور جن میں ہم پچھلے 67 سالوں میں رہتے آئے ہیں-

تاہم طاقت اور اختیار چھوڑنا آسان نہیں-

اور ہمارے سول ملٹری عدم توازن کو ٹھیک کرنے کے لئے مجموعی طور پر سازگار سماجی اور سیاسی ماحول پیدا کرنا سیاستدانوں کا کام ہے نہ کہ جرنیلوں کی ذمہ داری- اور اسی میں نواز شریف اور ان کے حواری بری طرح ناکام ہو رہے ہیں-

بدقسمتی کی بات ہے کہ مشرف تین ماہ تک فرد جرم عائد ہونے سے بچنے کے لئے ہر ممکن عذر پیش کرنے کے بعد بلآخر عدالت میں پیش ہو ہی گئے لیکن صرف اس لئے کہ فرد جرم عائد ہونے کے فوری بعد، ای سی ایل سے اپنا نام خارج کروانے کی درخواست دے سکیں اور عوام کے لئے ایک تقریر کر سکیں- یہ سب کچھ انہوں نے بنا کسی ایسی ضمانت کے کیا کہ فرد جرم عائد کرنے کے بعد انہیں چھوڑ دیا جائے گا- ایسی کوئی یقین دہانی اگر کرائی بھی گئی جس سے بعد میں شاید مکرا گیا، نواز شریف ہی کی مرضی سے کرائی گئی ہو گی اور ان کی کابینہ کے اہم اراکین اس کامیابی کے بعد اگر اپنے سینے ٹھونک رہے ہیں تو اس سے ظاہر ہے خاکی قیادت اپنی بے عزتی محسوس کرے گی-

اگر نواز شریف کو یقین تھا کہ مشرف نے مقدمے کی سماعت کرنا درست بات ہے اور سول ملٹری عدم توازن کو درست کرنے کی کنجی تو کیا اسے سب سے بہتر اور سنجیدہ انداز میں نہیں ہونا چاہئے تھا؟

آرمی چیف کو واضح الفاظ میں بتایا جا سکتا تھا کہ مشرف کے معاملے میں کوئی سودے بازی نہیں ہو گی- اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا تھا کہ اس مقدمے کو صرف اور صرف قانون کی حکمرانی کے حوالے سے دیکھا جائے، جو کہ ہر قسم کے تنازعہ اور انتقام کے منشور سے مبرا ہو اور جسے انفرادی بڑائی جتانے یا سیاسی فائدے کے لئے استعمال نہیں کیا جائے-

غازی کمپ میں آرمی چیف کا انداز بنیادی طور پر جارحانہ تھا- ہرچند کہ فوجی ہائی کمان کے اندر سیاستدانوں کی طرف سے فرد جرم عائد کرنے بعد دھوکہ دینے کے احساس کے علاوہ، ISPR کا بیان بنیادی طور پر فوج میں موجود غصے کے اظہار تھا-

مشرف کے ٹرائل پر فوج کو ناراض ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، که کر آپ بنیادی نکتہ بھول رہے ہیں- مشرف کے ٹرائل کے حوالے سے اپنی پالیسی اور حکمت عملی بناتے، آرمی چیف پر اس کے حوالے سے اپنے ہی ادارے کے اندر سے پڑنے والے دباؤ کا اندازہ نواز شریف کو ہونا چاہئے تھا-

نواز شریف نے بحیثیت وزیر اعظم، اپنے پہلے دور حکومت میں ایک آرمی چیف سے پنجہ آزمائی کی- دوسرے دور میں انہوں نے ایک کو برطرف کیا تو دوسرے کو برطرف کرنے کے چکر میں خود ہی اقتدار سے باہر ہوئے-

کیا اب تک انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا؟

کیا انہیں احساس ہے کہ ہمیں جن وحشیوں کا سامنا ہے وہ ہمارے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں؟

اگر کبھی ایسا وقت ہو جب ہمارا ملک، سول اور خاکی کے جھگڑے کا متحمل نہیں سکتا تو وہ وقت یقینا ابھی ہے-

انگلش میں پڑھیں

لکھاری ایک وکیل ہیں-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

تبصرے (0) بند ہیں