ٹی ٹی پی نہیں تو پھر مذاکرات کیوں؟

16 اپريل 2014
کیا مذاکرات ان 21 لوگوں کی جان بچا سکتے تھے جن کی اسلام آباد دھماکےمیں ہلاکت ہوئی, فوٹو عرفان حیدر۔۔۔۔
کیا مذاکرات ان 21 لوگوں کی جان بچا سکتے تھے جن کی اسلام آباد دھماکےمیں ہلاکت ہوئی, فوٹو عرفان حیدر۔۔۔۔

کیا مذاکرات ان 21 لوگوں کی جان بچا سکتے تھے جن کی اسلام آباد دھماکے میں ہلاکت ہوئی؟

بظاہر حکومت کی یہ سوچ تھی --- یا شائد اب تک ہو- لیکن پھر، یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی اتنی مخالفت کیوں جبکہ تحریک طالبان نے خودحملے کی مذمت کی؛ " ایسے حملے جن میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جائے شریعت میں ممنوع ہیں اور قطعی غیراسلامی ہیں"-

ٹی ٹی پی کا یہ بیان، اگر درست ہے، ہمیں پراسرار اور چھپے ہوئے ہاتھوں کی طرف واپس لاتا ہے --- وہ عوامل جو حالیہ حملوں کے ذمہ دار ہیں-

یہ چھپے ہوئے ہاتھ امن نہیں چاہتے ہیں- انہوں نے کبھی امن نہیں چاہا ہے- بظاہر، یہ ہمیشہ چھپے ہوئے ہاتھ ہوتے ہیں، جو یہ حملے اس وقت کرتے ہیں جب بھی طالبان اور حکومت آپس میں باتیں شروع کرنے والے ہوتے ہیں- تب پتہ لگتا ہے، کہ اتنا بڑا اور اتنا خوفناک دشمن دراصل یہ چھپے ہوئے ہاتھ ہیں--- جن کا کوئی نام نہیں ہے اور نہ ہی چہرہ سوائے ایک واضح ایجنڈا---- کہ امن مذاکرات کو پٹڑی سے اتارنا ہے اور دہشت کو زندہ رکھنا ہے-

ایک عام آدمی اخبار میں پڑھ رہا ہے اور ٹیلی وژن پر دیکھ رہا ہے کہ امن مذاکرات میں پیشرفت ہو رہی ہے، یا نہیں ہورہی ہے-

اسے اس کی پرواہ نہیں ہے کہ مذاکرات کا دوسرا دور کب ہوگا یا ان کے درمیان کیا شرطیں تجویز کی گئ ہیں--- اس کو صرف تحفظ چاہئے، اور یہ مذاکرات اگر یہ نہیں دے رہے ہیں، تو ان کو مزید آگے بڑھانے سے کیا حاصل؟

حکومت اس وقت جتنا جلد ہوسکے تشدد کی سطح کم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے اور ٹی ٹی پی ہی ایک نمایاں دشمن کے طور پرموجود ہے۔ لہٰذا ان کی شرطوں کو پورا کرنے کیلئے جس حد تک جا سکیں جارہے ہیں- بہرحال جو بھی ہو، یہ دیکھنے کیلئے ایک دائمی قنوطی یا نقاد ہونے کی ضرورت نہیں ہے، نہ بہت زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت ہے کہ یہ کوششیں کہیں نہیں لے جارہی ہیں-

ہم لوگ شاید غلط لوگوں سے بات کررہے ہیں- ہم ان کے قیدیوں کو رہا کررہے ہیں اور ان کے متعصب نظریوں کے بارے میں سوچ بچار کررہے ہیں جبکہ اصلی دشمن معصوم لوگوں کو سبزی منڈی میں بم کا نشانہ بنا رہا ہے-

امن لانے کی کوئی بھی کوشش ضائع ہوجائیگی اگر دشمن زیادہ طاقتور ہے اور جسے ہر کام کرنے کی آزادی ہے، کیونکہ اس کی شناخت لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے- اگر کچھ کرنا ہے، تو شاید حکومت اور ٹی ٹی پی کے ایجنڈے پر سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ اس گروہ کی شناخت کر کے اس کے خلاف کارروائی کی جائے جو ان جرائم میں ملوث ہے- اس سے نہ صرف عام آدمی کو تھوڑا تحفظ کا احساس ملے گا، بلکہ اس سے ٹی ٹی پی کی اپنی حیثیت بھی واضح ہوجائیگی-

ایک مرتبہ چھپے ہوئے ہاتھ کا معاملہ طے پاگیا، تو حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات متوازن طریقے سےمناسب قسم کی شرطوں کے ساتھ، بجائے ان کے جو پہلے دی جارہی تھیں، آگے بڑھینگے- اس بات کا کوئی فائدہ نہیں کہ اپنی طاقت اور کوشش کو بے مقصد چیزوں پر ضائع کریں-

رحمان ملک اور چودھری نثار علی خان کو ہم کئی مرتبہ کیمرے کی جانب سچائی کا نقاب اوڑھ کر یہ کہتے ہوئے دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح "چھپے ہوئے ہاتھ" اور" تیسرے عوامل" ترقی اور امن کے راستہ میں حائل ہورہے ہیں- کئی مرتبہ ناکامی نے ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا ہے اور بہت ساری معصوم جانوں کا نذرانہ لیا ہے-

اب ہماری ساری کوششیں اس چھپے ہوئے دشمن کو بے نقاب کرنے اور اسے پکڑنے کی جانب ہونی چاہئیں اور اگر حکومت یا فوج اس صلاحیت سے عاری ہے، تو یہ بات بھی بتا دینی چاہئے تاکہ اس کی نااہلی میں بھی کوئی شبہہ نہ رہے-

اس وقت، ایسا لگ رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات اورجنگ بندی شاید ہماری حکومت کی قیادت اور فوجی افراد کی جان تو بچا سکتی ہے لیکن سڑکوں پر ہمارے عام آدمی کی جان نہیں بچا سکتی -

حکومت ان جانوں کو بچانے کیلئے کس سے مذاکرات کا منصوبہ بنا رہی ہے؟

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ : علی مظفر جعفری

تبصرے (0) بند ہیں