لیجئے حد ہو گئی، ہمارے مولانا حالی کو معلوم ہی نہ تھا کے 21 ویں صدی میں ان کی باتیں کتنی غلط ثابت ہوں گی- آخر اتنے بڑے نقاد شاعر اور غالب جیسے جینیس کے شاگرد کو اتنی تو خبر ہونی چاہیے تھی کے اخلاقی اور پیشه ورانہ قدریں ہمیشہ ایک سی نہیں رہتیں، یہ بھی کسی بے وفا عاشق کی پسند کی طرح بدلتی رہتی ہیں. آپ سوال کریں گے کے آخر مولانا نے ایسا کیا کہہ دیا جو غلط ثابت ہو گیا، تو جواب حاضر ہے.

مولانا نے ١٩ ویں صدی کے آخر میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا 'اخبار نویسی یا صحافت اور اس کے فرائض'، اس مضمون میں جناب ایک 'لائق' اخبار نویس کے فرائض بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛

اپنی معلومات عامہ کو درست کرے -

اپنی طرز تحریر میں اعتدال پیدا کرے -

مدح و ستائش میں مبالغے کو کام نہ فرماۓ -

نکتہ چینی میں خیر خواہی اور سنجیدگی کو ہاتھ سے نہ جانے دے -

جب تک خبر کسی معتبر ذریعے سے نہ پنہنچے اس وقت تک اشاعت نہ کرے -

ملایانہ اور طالب علما نہ بحثوں میں نہ پڑ ے -

اب آپ ہی بتائیں حالی نے کیا سوچ کر یہ سب تحریر کیا؟

کیا انہیں علم نہ تھا کے 21 ویں صدی میں ٹی وی نام کی ایک شے ہوگی جس میں صحافی روزانہ نظر آئیں گے اور ایسی ایسی ملایانہ اور طالب علمانہ بحثیں کریں گے کہ سننے اور دیکھنے والے سوچتے رہ جائیں کہ آخر ایک صحافی بننے کے لیے کس ڈگری کی ضرورت ہوتی ہے؟

سچ تو یہ ہے کہ جس طرح کی گفتگو ٹی وی پر دکھائی اور سنائی دیتی ہے اس کے لیے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کے گلی کوچوں کے کونوں میں سیاست کے داؤ پیچ سیکھنا اور اس بات کا علم رکھنا کہ کرکٹ کے کون سے میچ میں کس کھلاڑی پر سٹا لگا ہوگا کافی ہے.

رہا زبان کا استعمال تو اس کا کیا ہے، وہ تو بیچاری امراؤ جان ہے جسے بٹوارے کے بعد سے جگہ جگہ لے جایا جا رہا ہے، کبھی ایک امیر آدمی کی کوٹھی پر تو کبھی دوسرے سیٹھ کے گھر پر…

ظاہر ہے کے ٹی وی پر آنے والا ہر 'صحافی' صحافی نہیں اور اس بات کی تخصیص اور تمیز ضروری ہے، چند لوگ ایسے ضرور ہیں جن کا تعلق صحافت سے ہے اور ان کی گفتگو میں ان کے پیشے کی ٹرینینگ نظر آتی ہے، ٹریننگ سے مراد ہے فیلڈ رپورٹنگ، سبنگ اور خبر کو اس کا صحیح مقام دینا، لیکن زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو کسی نہ کسی وجہہ سے ٹی وی پر آ چکے ہیں اور، بقول ہمارے دوست شباب گراں کے، چھا چکے ہیں اور اب ان کو کوئی روکنے والا نہیں-

حالی جس بات کو صحافت میں مرکزی حیثیت دیتے ہیں وہ ہے 'پبلک کی معلومات میں اضافہ کرنا' لیکن اس طرح کہ لوگوں کے 'ذوق' میں بھی اضافہ ہو. یہاں ذوق سے مراد ان کی ادبی قابلیت نہیں بلکہ علم کی عمومی سطح بلند کرنا ہے- اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن تاثر یہ بنتا ہے کہ صحافی معاشرے کے اس طبقے سے تعلق رکھتا ہے جس کام پبلک کے علم میں سلیقے سے بڑھاؤ لانا ہے، ترسیل معلومات کی صورت میں-

ٹی وی پر نیوز نشر کرنے سے جہاں بہت سے فائدے ہوئے ہیں وہاں چند نقصان بھی- اب ہر ایسے شخص کو صحافی کہہ دیا جاتا ہے جو ٹی وی پر لوگوں کے انٹرویوز کرتا ہے، ٹاک شوز کی شکل میں -- ان میں سے بیشتر نے کبھی رپورٹنگ نہیں کی ہوتی، نہ ہی کبھی کسی خبر کو پالیسی اور زبان کے حوالے سے ایڈٹ کیا ہوتا ہے اور نہ ہی یہ زبان کی اونچ نیچ کو سمجھنے کے قائل ہوتے ہیں -- اس میں نقصان یہ ہے کے لوگ صحافت کو اب یہی کچھ سمجھنے لگے ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے-

جرنلزم زور شور سے معلومات دینا نہیں بلکہ لوگوں کو مستند معلومات کے ذریعے سچائی تک پہنچنے میں مدد کرنا ہے- 'صحافت' خبر کے ذریعے لوگوں کو ہیجان میں مبتلا کرنا نہیں بلکہ یہ باور کرانا ہے کہ زندگی کوئی 'تھیم پارک' نہیں جس میں پیسے دے کر کسی بھی جھولے پر بیٹھا جا سکتا ہے-

'صحافت' لفظ کی طاقت کا بے جا استعمال نہیں بلکہ لفظ سے ان لوگوں کو طاقت بخشنا ہے جو محرومیت کی کسی نہ کسی صورت سے جوجھ رہے ہوں.

تبصرے (0) بند ہیں