دو قومی نظریہ اور ہندوستانی اقلیتیں

19 اپريل 2014
دو قومی نظریہ مسلمانوں اور ہندوؤں میں تو تفریق کرتا ہے لیکن دیگر اقلیتوں، خاص کر دلتوں کو یکسر فراموش کرتا ہے۔
دو قومی نظریہ مسلمانوں اور ہندوؤں میں تو تفریق کرتا ہے لیکن دیگر اقلیتوں، خاص کر دلتوں کو یکسر فراموش کرتا ہے۔

دو قومی نظریہ پاکستان کی تخلیق کی بنیادی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس نظریے کا جائزہ لینے کے لیے محمد علی جناح صاحب کی مارچ 1940ء میں کی گئی تقریر کا ایک اقتباس ملاحضہ کریں:

’اسلام او ر ہندو دھرم محض مذاہب نہیں، بلکہ درحقیقت دو مختلف معاشرتی نظام ہیں۔ میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک د وسرے کی ضد ہیں، بلکہ اکثر متصادم ہوتے رہتے ہیں۔‘

معمار پاکستان کے ان الفاظ سے یہ بات واضح ہے کہ انہیں ہندو مسلم بھائی چارے کی کوئی امید باقی نہیں رہی تھی اور انہوں نے مسلمانوں کے لیے علیحد ہ وطن کے قیام کو نجات کی واحد راہ سمجھ لیا تھا۔

دو قومی نظریے کو تاریخ کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو بہت سے سقم نظر آتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ہزار سال حکمرانی کرنے کے بعد جب رعایا بننے کی باری آئی تو علیحدہ قوم کا نعرہ بلند کر دیا گیا، یہ نظریہ بہت سے تاریخی حقائق کی منافی کرتا نظر آتا ہے۔

مالابار کے ساحل پر عرب تاجروں کی آمد سے زمانہء حال تک مسلمان برصغیر میں اقلیت رہے ہیں۔ محمد بن قاسم کی راجہ داہر سے جنگ کے دوران کئی مسلمان راجہ داہر کی فوج میں شامل تھے. محمود غزنوی نے ملتان کے مسلمان حاکم پر حملہ کرنے کے لیے اپنے ایک ہندو جنرل کا انتخاب کیا. دہلی سلطنت کے دور میں سونے کے سرکاری سکّو ں پر لکشمی دیوی کی تصویر ہوتی تھی. معروف تاریخی عمارات کی تعمیر میں غیر مسلم مزدور اور ماہرین تعمیر شامل تھے.

اکبر کے دور حکومت میں غیر مسلموں پر سے جزیہ دینے کی پابندی اٹھا لی گئی تھی اور اسکے دربار میں کئی ہندو وزیر اور مشیر شامل تھے. اورنگزیب نے کئی پرانے مندروں کی مرمت اور نئے مندروں کی تعمیر کے لیے چندہ دیا. ٹیپو سلطان کے وزیر اعظم اور کمانڈر انچیف دونوں برہمن تھے اور 136 مندروں کو سلطان کی جانب سے سالانہ امداد ملا کرتی تھی. 1857ء کی جنگ میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر کمپنی فوج (جس میں بیشتر فوجی مسلمان تھے) کا مقابلہ کیا۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ دو قومی نظریہ مسلمانوں اور ہندوؤں میں تفریق تو کرتا ہے لیکن ہندوستان میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں اور خاص کر دلتوں (نیچ ذات ہندو جو آج بھی ہندوستان کی سب سے بری اقلیت ہیں) کی حیثیت کو فراموش کرتا ہے۔

ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق:

’دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندو دشمنی کی جو عمارت تعمیر کی گئی ہے، اس میں ہندوؤں میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی، وہ دشمن کے روپ میں نظر آتے ہیں، اس وجہ سے معاشرے میں فرقہ واریت کے جذبات ابھرتے ہیں اور جب دو قوموں میں اس قدر فرق کر دیا جائے کہ ان میں ملنے جلنے اور یگانگت کا کوئی راستہ ہی نہ رہے، تو اس سے ذہن میں نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، انتقام، جنگ و جدل، خون ریزی اور دشمنی اس قدر گہری ہو جاتی ہے کہ وہ مصالحت، امن، دوستی اور آشتی کو قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔

یہ نفرت ہندو اور مسلمان ہی کی نہیں رہتی، بلکہ ’فرق‘ کی وجہ سے یہ مسلمان فرقوں کے درمیان بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا اظہار بھی تشدد اور قتل و خون ریزی سے ہوتا ہے۔‘

دو قومی نظریے نے ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کی جدوجہد کو سخت نقصان پہنچایا۔ ایک طاقتور اقلیت نے اپنے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ تو کر دیا لیکن باقی کمزور اقلیتوں کے لیے یہ دروازہ بھی بند کر گئے۔

تقسیم کے بعد سے ہندوستان اور پاکستان میں مختلف اقلیتیں اب اسی بنیاد پر علیحدہ وطن کا مطالبہ کریں تو انہیں سرکار کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسند کئی دہائیوں سے ریاست کے ساتھ برسرپیکار ہیں، ہندوستان میں نکسل باڑی تحریک اور دیگر اقلیتوں کا یہی حال ہے۔

بقول وسعت اللہ خان؛

’ذرا سوچئے کہ آج پاکستان کی کوئی نسلی، لسانی یا مذہبی اقلیت بالکل قرارداد لاہور کی طرح کی ایک قرارداد منظور کرنے کی کوشش کرے تو اکثریت اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گی؟ شکر ہے قرارداد لاہور اچھے وضع دار انگریزی وقتوں میں منظور ہو گئی۔‘

پچھلے سال عاشورہ کے موقع پر راولپنڈی شہر میں ہونے والے افسوسناک واقعات کی خبریں پڑھتے پڑھتے اچانک ایک چونکا دینے والی خبر پر نظر پڑی۔ پہلے تو یقین نہ آیا، ایک دفعہ پھر خبر دیکھی، اور آخرکار اپنے محدود ذرائع سے تصدیق کی۔ وہ خبر کیا تھی، آپ بھی ملاحضہ کریں؛

’بھارت کے کروڑوں شیعہ، سنی مسلمانوں نے 10 محرم یوم عاشور بڑے عقیدت و احترام سے منایا۔ دہلی، ممبئی، لکھنؤ، حیدرآباد، امروہہ، میرٹھ، مظفر نگر سمیت بھارت کے 440 اضلاع میں یوم عاشور پر حضرت حسین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے تین ہزار سے زائد جلوس نکالے گئے۔ ممبئی میں ماتمی جلوس مغل مسجد سے نماز فجر کے بعد برآمد ہوا جو بعد عصر قیصر باغ پر اختتام ہوا۔ تامل ناڈو اور مسلم اکثریت کے صوبوں میں عاشور کے روز عام تعطیل رہی۔‘

اسکے ساتھ کی خبر تھی؛

’دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں یوم عاشور کے موقع پر دو گروپوں میں تصادم کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 10 ہو گئی جس کے بعد ملتان اور چشتیاں میں بھی کشیدگی پیدا ہو گئی، اور وہاں انتظامیہ کو مشتعل مظاہرین پر قابو پانے کے لیے پولیس کی مدد کے لیے فوج طلب کرنا پڑی۔‘

پچھلے سال ہندوستانی ریاست اتر پردیش کے علاقے مظفر نگر میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات ایک مسلمان نوجوان کے ایک ہندو لڑکی کو مسلسل تنگ کرنے پر شروع ہوئے اور دونوں طرف سے قتل وغارت گری کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ مقامی حکومت نے اس مسئلے میں مسلمان موقف کی حمایت کی۔ شانتی نگر، گوجرہ اور جوزف کالونی کے واقعات میں پاکستانی حکومت کی بے بسی اور بے حسی فقید المثال تھی۔

ان تاریخی اور حالیہ واقعات کی روشنی میں کیا دو قومی نظریے کو حرف آخر سمجھنا عقل مندی ہے؟ ہم تقسیم ہند کی مخالفت کا نعرہ بلند نہیں کر نا چاہتے لیکن کیا دو قومی نظریہ ہمارے ملک کے لیے کبھی کا ر آمد ثابت ہوا، یا ہو سکتا ہے؟

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں