2 - پاکستان کی شہری تاریخ ... ہمیں سب ہے یاد ذرا ذرا

اپ ڈیٹ 19 اپريل 2014
مغربی اور مشرقی پاکستان کے نوجوانوں کے بیچ ایک واضح خلا نمودار ہو گیا، حالانکہ انیس سو ارسٹھ سے انہتر تک ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک میں دونوں ہی پیش پیش تھے-
مغربی اور مشرقی پاکستان کے نوجوانوں کے بیچ ایک واضح خلا نمودار ہو گیا، حالانکہ انیس سو ارسٹھ سے انہتر تک ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک میں دونوں ہی پیش پیش تھے-

انیس سو ستر کی دہائی کے شہری پاکستان کی تاریخ پر مبنی اس بلاگ کا یہ دوسرا حصّہ ہے، پہلے حصّے کے لئے کلک کریں


حالانکہ ان انتخابات کا انعقاد فوجی آمریت کی سرپرستی میں ہوا لیکن آج بھی پاکستانی سیاست کے ماہرین ان انتخابات کو سب سے زیادہ آزاد اور منصفانہ قرار دیتے ہیں-

نتائج حیران کن تھے! بھٹو کی پی پی پی (مغربی پاکستان میں) اور مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ (مشرقی پاکستان میں) نے پاکستانی سیاست کے قدامت پرست ٹھیکے داروں کو میدان سے تقریباً نکال باہر کیا تھا-

ان انتخابات کے نتائج یحییٰ خان کی فوجی حکومت اور مذہبی جماعتوں کے لئے ایک جھٹکا تھے-

نیشنل اسمبلی کی تین سو میں سے ایک سو باسٹھ نشستیں جیتنے والی مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کو پاکستان کی پہلی عوامی حکومت بنانے کی دعوت ملنی چاہیے تھی- لیکن چونکہ مجیب الرحمٰن کی پارٹی خالصتاً بنگالی نیشنلسٹس پر مشتمل تھی، چناچہ یحییٰ خان اور بھٹو دونوں ہی اس حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار تھے-

اس کے بعد اگر کوئی حکومت بنانے کا اہل تھا تو وہ بھٹو کی پی پی پی تھی جس نے اکاسی نشستیں جیتی تھیں- اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ پاکستانی کی سیاسی تاریخ کا سب سے متنازعہ اور تکلیف دہ باب ہے-

بعض مبصرین، بھٹو اور مجیب کو آپس میں لڑانے کا دوشی یحییٰ خان کو ٹھہراتے ہیں، جبکہ دوسروں کا یہ کہنا ہے کہ بھٹو نے یحییٰ کے ساتھ ساز باز کی تاکہ مجیب کو حکومت سے باہر رکھا جاۓ-

اس معاملے پر پاکستانیوں کو ایک اطمینان بخش فیصلے پر متفق ہونا ابھی باقی ہے-

مغربی اور مشرقی پاکستان کے نوجوانوں کے بیچ ایک واضح خلا نمودار ہو گیا، حالانکہ انیس سو ارسٹھ سے انہتر تک ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک میں دونوں ہی پیش پیش تھے-

الیکشن نتائج پر پرجوش اور مغربی پاکستان کی طرف سے بنگالی اکثریتی جماعت کو پارلیمنٹ میں اختیارات دینے میں نمایاں ہچکچاہٹ سے غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی، اور بنگالی نیشنلسٹ گروہوں نے یحییٰ خان کی ملٹری حکومت کے خلاف متشدد مظاہرے شروع کر دیے-

انہوں نے ملٹری پر دھمکی آمیز حکمت عملی استعمال کرنے کا بھی الزام لگایا، جو انیس سو اکہتر تک بہیمانہ مظالم میں تبدیل ہو گئے جن میں آبرو ریزی، تشدد اور قتل و غارت شامل تھے-

حالانکہ مغربی پاکستانی نوجوانوں کے بائیں بازو سیکشن نے مشرقی پاکستان کے حوالے سے بھٹو کے موقف کی حمایت کی، دائیں بازو کے نوجوانوں نے، جن میں اکثریت جماعت اسلامی کے اسٹوڈنٹ ونگ، اسلامی جمیعت طلبہ (آئی جے ٹی) کے نوجوانوں کی تھی، اس حوالے سے جارحانہ اور فوج نواز موقف اختیار کرنا شروع کر دیا-

پاکستان آرمی نے آئی جے ٹی اور جماعت کے ممبران کو دائیں بازو کے دو عسکری گروہوں، البدر اور الشمس، کے لئے بھرتی کیا. ان دونوں گروہوں نے آرمی کی سرپرستی میں مشرقی پاکستان کے بنگالی نیشنلسٹس اور ان کے حمایتیوں کے خلاف انتہائی جابرانہ اقدامات کیے-

بلآخر دسمبر انیس سو اکہتر میں یہ ہنگامےایک اور ہند و پاک جنگ کی وجہ بنے- لیکن انیس سو پینسٹھ کی جنگ کے برعکس جس کے نتیجے میں ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا تھا، پاکستانی فوج اپنے مقابل ہندوستانی فوج کے ہاتھوں بری طرح مار کھا گئی، جن کی حمایت بنگالی نیشنلسٹ عسکری گروہ کر رہے تھے-

جب مجیب الرحمٰن مغربی پاکستان کی جیل سے رہا ہونے کے بعد براستہ لندن، بنگلہ دیش کی قیادت سنبھالنے کے لئے مشرقی پاکستان پہنچے تو اسی دوران بھٹو صاحب کو یحییٰ مخالف افسران نے باقی ماندہ پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے کی دعوت دی-

انیس سو ساٹھ کی دہائی کے آخر میں طلبہ تحریکوں اور جوشیلے نوجوانوں نے جو انقلابی ماحول تخلیق کیا تھا اس سے بڑی تبدیلی (ملک دو لخت ہو گیا) تو واقع ہو گئی، لیکن یہ وہ تبدیلی نہیں تھی جس کی امید ان انقلابیوں نے کی تھی-

بھٹو نے صاف، شفاف سوشلسٹ اصلاحات متعارف کرانے اور ملک کو ایک واضح جمہوری آئین پیش کرنے کے لئے اپنی پارٹی کا عزم دہرایا-

اگر کسی نے انیس سو بہتر اور انیس سو چوہتر کے بیچ کے پاکستانی اقتصادی اعداد و شمار دیکھے ہوں تو یہ بات سامنے آۓ گی کہ بھٹو حکومت نے قابل ذکر کام کیا تھا، وہ بھی ایک ایسے ملک میں جس کی معیشت جنگوں میں وسائل کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے تباہ ہوگئی تھی-

یہ بھی سچ ہے کہ بھٹو حکومت کے ابتدائی سالوں میں قوم کا مزاج یکسر تبدیل ہو گیا تھا، کیونکہ ملک ایک نئے پاکستان کی طرف بڑھ رہا تھا-

ظاہر ہے، بھٹو حکومت اور حزب اختلاف کے درمیاں جھگڑے بھی مسلسل خبروں کی زینت بنتے رہے، لیکن پھر بھی پاکستانیوں نے اب سکون کا سانس لینے کا فیصلہ کر لیا تھا، اب وہ مشرقی پاکستان کے سانحے میں اپنی کھوئی ہوئی عزت بحال کرنے کے لئے کوشاں تھے-

مثال کے طور پر، یونیورسٹی اور کالجز کے طلبا جو انیس سو انہتر سے سراپا احتجاج بنے ہوۓ تھے، اپنے کیمپس واپس چلے گۓ اور سالانہ اسٹوڈنٹ یونین الیکشنز کے ذریعہ سیاست میں حصّہ لینے لگے-

حالانکہ اب بھی بائیں بازو کے طلبا، یونیورسٹی اور کالجز میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے تھے، لیکن انیس سو ساٹھ میں جس اتحاد کا مظاہرہ انہوں نے کیا تھا وہ کہیں کھو گیا تھا-

بائیں بازو کے طلبا کی سب سے بڑی تنظیم، نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن (این ایس ایف) کئی حصّوں میں تقسیم ہو گئی- کیمپسوں میں بائیں بازو کی تقسیم اس بات کی غمازی تھی کہ مڈل کلاس غیر یقینی صورتحال پر غور کر رہی ہے-

انیس سو ساٹھ کی دہائی کے آخر میں، سالوں تک ملک کا نقشہ تبدیل کر دینے والی سیاسی محاذ آرائی میں حصّہ لینے اور ثقافتی کردار ادا کرنے کے بعد جیسے لوگوں کے حواس گم ہو گئے تھے-

اسی حواس باختہ، دلبرداشتہ اور مایوس مڈل کلاس کے ایک بڑے حصّے نے سیاست سے ناطہ توڑ کر فقط خود کو 'لبرل' کہلانا شروع کر دیا، جبکہ باقی ماندہ بدلتے ہوۓ سیاسی اور ثقافتی ماحول میں اپنی جگہ بنانے کے لئے عارضی طور پر ان سیاسی و مذہبی جماعتوں کی حمایت کرنے لگے جنہیں انیس سو ستر کے انتخابات میں بائیں بازو کی ترقی پسند طاقتوں نے میدان سے نکال باہر پھینکا تھا-

یہ رجحان اس وقت کی طلبا سیاست میں بھی دیکھنے میں آیا، جیسا کہ اسٹوڈنٹ یونین الیکشنز کے دوران ترقی پسند ووٹ این ایس ایف کے مختلف دھڑوں اور لبرلز میں تقسیم ہو گئے. ان حالات سے سب سے زیادہ فائدہ جماعت اسلامی کے اسٹوڈنٹ ونگ، اسلامی جمیعت طلبا کو ہوا-

جاری ہے.....

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں