عظیم ناول نگار گیبریئل انتقال کر گئے

اپ ڈیٹ 18 اپريل 2014
نوبل انعام یافتہ کولمبین مصنف گیبریئل گارشیا۔ فوٹو رائٹرز
نوبل انعام یافتہ کولمبین مصنف گیبریئل گارشیا۔ فوٹو رائٹرز

میکسکو سٹی: اپنی خوبصورت تحریروں کے ذریعے محبت، خاندان اور آمریت کی کہانیوں سے دل کو موہ لینے والے نوبل انعام یافتہ کولمبین مصنف گیبریئل گارسیا لاطینی امریکا میں 87 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

گابو کے نام سے معروف مصنف دنیا کے مشہور ترین لاطینی امریکا ناول نگاروں میں سے ایک اور ادبی تحریک کے روح رواں تھے۔

ایک عرصے تک صحافت کے شعبے سے منسلک رہنے والے گابو رنگ رنگا شخصیت کے مالک اور کیوبا کے رہنما فیدل کاسترو کے دوست تھے۔

گیبریل گارسیا مارکیز مر نہیں سکتا

ایک مرتبہ نوبل انعام یافتہ ماریو ورگاس لوسا نے انہیں مکا جڑ دیا تھا لیکن اور انہوں نے ازراہ مذاق کہا تھا کہ میں اس لیے لکھتا ہوں تاکہ لوگ مجھ سے محبت کریں۔

ان کے انتقال پر بڑے بڑے عالمی رہنماؤں، مصنفین اور شوبز کی شخصیات پر انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

کولمبیا کے صدر جوآن مینوئل سنتوس نے ٹوئٹ کرتے ہوئے گیبریئل کو کولمبیا کی تاریخ کی سب سے بڑی شخصیت قرار دیا اور ان کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔

انہوں نے اسے ایک بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے تین روزہ قومی سوگ کا بھی اعلان کیا۔

امریکی صدر باراک اوباما نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دنیا ایک عظیم مصنف سے محروم ہو گئی ہے۔

ابھی تک ان کی موت کی وجوہات کا علم نہیں ہو سکا لیکن 31 مارچ کو انہیں نمونیا کے باعث ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا تاہم ایک ہفتے بعد وہاں سے فارغ کردیا گیا تھا جس کے بعد وہ میکسکو سٹی میں واقع اپنے گھر میں منتقل ہو گئے تھے۔

انتقال کے وقت ان کی بیوی اور دو بیٹے ان کے ساتھ گھر پر موجود تھے۔

گیبریئل کے اہل خانہ نے کہا ہے کہ ان کی لاش کو جلایا جائے گا اور پیر کو انہیں میکسکو سٹی کے ثقافتی سینٹر میں عوامی سطح پر خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔

وہ چھ مارچ کو کولمبیا کے ساحلی علاقے میں واقع گاؤں میں ایک ٹیلی گراف آپریٹر گارشیا مارکوئیز کے گھر پیدا ہوئے۔

دادا دادی اور آنٹی کی زیر تربیت پرورش پانے والے گیبریئل ہسپانوی آبادکاروں، مقامی آبادی اور کالوں کی غلامی کے ورثے میں پروان چڑھے۔ ان کے دادا ایک ریٹائر کرنل تھے۔

اپنی طرز کے لیجنڈ کے شاہکار ناول 'ون ہنڈرڈ ایئر آف سولی ٹیوڈ' (تنہائی کے سو سال) کا 35 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور اس کی 3 کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں۔

وہ اپنی کہانیوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے مشہور تھے اور اس انداز میں پیش کرتے کہ قاری خود کو اس کہانی کا حصہ محسوس کرتا۔

انہوں نے ناول نگارئی کا آغاز 1961 میں اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ میکسکو سٹی منتقل ہونے کے بعد کیا۔

اس دوران انہیں سخت مالی مسائل کا بھی سامنا رہا لیکن قلم سے محبت ان کی راہ میں حائل نہ ہو سکا حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہیں اپنے شاہکار ناول کو ایڈیٹر کے پاس بھیجنے لیے وسائل تک نہ تھے لیکن دنیا ہر بڑے ناول نگار نگار کی طرح انہوں نے بھی اس وقت کو ہنسی خوشی کاٹ لیا۔

اور پھر ان کے خوابوں نے حقیقت کا روپ اس وقت دھارا جب 1982 میں انہیں سوئیڈن میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔

ان کا آخری ناول 'میری افسردہ طوائف کی یادیں' تھا جو 2004 میں شائع ہوا۔

مارکوئیز صحافتی شعبے کا بھی حصۃ رہے اور اسے دنیا کا سب سے خوبصورت شعبہ گردانتے تھے۔

انہوں نے 1994 میں کولمبیا کے شہر کارٹا جینا میں ابیرو امریکن نیو جرنلز فاؤنڈیشن قائم کی۔

ان کی پہلی جاب بھی ایک اخبار کے ساتھ تھی جس نے 1947 میں ان کی پہلی مختصر کہانی شائع کی جہاں ان کی ماہانہ آمدنی آدھے ڈالر سے بھی کم تھی۔

تاہم ابھی زندگی میں کافی کچھ دیکھنا باقی تھا، انہوں نے ایک آرٹیکل لکھا جو فوجی حکام کا پسند نہ آیا اور یوں وہ یورپ کو چل دیے اور جنیوا، روم اور پیرس میں گھومے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں