پشاور: شمالی وزیرستان میں پولیو کے مسلسل رپورٹ ہونے والے کیسز اور علاقے کی صورتحال کے پیشِ نظر متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ شمالی و جنوبی وزیرستان اور خیبر ایجسنی کی تحصیل باڑہ میں پولیو جیسے مہلک وائرس کے خاتمے کے لیے فوج حکومت کا ساتھ دے گی۔

خیال رہے کہ وزیرستان میں 2012ء سے پولیو سے بچاؤ کی کوئی بھی ویکسین موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے یہاں اس وائرس کے نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ فوجی اہلکار شدت پسندی سے متاثرہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے فاٹا کے مختلف حصوں میں انسدادِ پولیو ٹیموں کو سیکیورٹی فراہم کریں گے۔

حکام کا مزید کہنا تھا کہ اس سے علاقے میں پولیو وائرس کے پھیلاؤ میں کمی واقع ہو گی، جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا کے بچے فاٹا سے منتقل ہونے والے وائرس سے محفوظ رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ فاٹا سیکریٹریٹ کے ایک اجلاس میں پاکستان آرمی اور خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت نے شمالی وزیرستان میں بڑھتے ہوئے پولیو کیسز اور تحصیل باڑہ میں اس سے بچاؤ کی ویکسین نہ ہونے کا نوٹس لیا۔

اجلاس کے دوران ان علاقوں میں پولیو ٹیمیوں کو ہر ممکن سیکیورٹی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، تاکہ علاقے میں پانچ سال سےکم عمر تمام بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین دی جاسکیں۔

حکام کا کہنا تھا کہ شمالی و جنوبی وزیرستان میں فوج سیکیورٹی آپریشن کررہی ہے، جبکہ ایف سی کی جانب سے پانچ ایجنسیوں میں یہ آپریشن مکمل کیا جاچکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تین علاقوں میں حکومت کی انسدادِ پولیو کو خدشات لاحق ہیں جہاں پر پاک فوج نے ہیلتھ ورکرز کے ساتھ تعاون کرنے کی آمادگی ظاہر کی ہے۔

ان علاقوں میں خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ سمیت شمالی اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں۔

دارالحکومت اسلام آباد میں صحت سے متعلق حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان آرمی ایک حکومتی ادارہ ہے اور لازمی ہے کہ یہ حکومتی پروگرام میں اس وقت مدد کرے جب بھی حکومت کو اس کی ضرورت ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں فوج پولیٹیکل انتظامیہ کی مدد کرے گی تاکہ وہاں متاثرہ بچوں تک رسائی حاصل کی جاسکے۔

حکام نے یہ بھی بتایا کہ فوج علاقے میں ویکسین سے محروم تقریباً تین لاکھ بچوں کو اس وائرس سے بچانے کے نقطہ نظر کے تحت کوشش کررہے ہے، کیونکہ 2012ء میں شدت پسندوں نے یہاں پر پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی عائد کردی تھی۔

خیال رہے رواں سال پاکستان میں اب تک پولیو کے 47 نئے کیسز سامنے آچکے ہیں، لیکن شمالی وزیرستان وہ واحد علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ 33 کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

ہیلتھ ورکرز کو خدشہ ہے کہ اگر یہاں پر بچوں کو پولیو ویکسین فراہم نہیں کی گئی تو یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جن بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے انہیں اب تک کوئی ویکسین فراہم نہیں کی جاسکی، کیونکہ علاقے میں طالبان نے اس پر پابندی عائد کررکھی ہے۔

اسی طرح جنوبی وزیرستان میں بھی اس سال دو نئے پولیو کیسز سامنے آئے، جبکہ خیبر اور فرنٹئر ریجن میں ایک اور بنوں میں دو نئے کیسز سامنےآئے ہیں۔

جمعرات کو پاک فوج کی صدر دفتر جی ایچ کیو میں ہونے والے اس اجلاس میں موجود عہدیداروں کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے وفاقی حکومت سے فاٹا میں اس مہلک بیماری کے شکار بچوں کو ویکسین پلانے کی یقین دہانی کروانے کا کہا گیا ہے۔

یاد رہے کہ اس قبل اقوامِ متحد کے صحت سے متعلق ادارے ڈبلو ایچ او نے باڑہ کے علاقے میں پانی کے اندار اس وائرس کی تصدیق کی تھی اور صوبائی حکومت سے کہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں وفاق سے بچوں کو ویکسین پلانے کی درخواست کرے تاکہ یہ وائرس پشاور تک منتقل نہ ہوسکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں