'سپریم کورٹ نے جمہوریت کو سہارا دینا سیکھا'

19 اپريل 2014
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا کہنا تھا کہ عدلیہ نے آئین شکنی کی روایت ختم کرکے سماجی کردار وسیع کیا۔
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا کہنا تھا کہ عدلیہ نے آئین شکنی کی روایت ختم کرکے سماجی کردار وسیع کیا۔

اسلام آباد: چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے گزشتہ روز کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں سیکھا کہ اپنی آئینی اتھارٹی کے حصول کے لیے کس طرح جمہوریت کو برقرار رکھ کر اسے سہارا دیا جائے۔

جمعہ کو اسلام آباد میں دو روزہ انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ نے آئین شکنی کی روایت کو توڑکر قانون کی حکمرانی سے متعلق اپنے سماجی کردار کو وسیع کردیاہے جس سے عوام میں جمہوری اقدار اور بنیادی حقوق کے بارے میں شعور بڑھ گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چاہے جتنے بھی چیلنج درپیش ہوں عوام کو انصاف فراہم کرتے رہیں گے آئین نے سپریم کورٹ کو مقننہ اور انتظامیہ کے اقدامات پر نظر رکھنے کا اختیار دیا ہے اور انہیں فخر ہے کہ عدلیہ اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے رہی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ جوڈیشل کانفرنس ایک مستقل حیثیت اختیار کر چکی ہے جس کے انعقاد سے تین بڑے مقاصد حاصل ہو رہے ہیں جو انصاف کی فراہمی کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں جس میں پہلا مقصد یہ ہے کہ یہ کانفرنس وکلاء اور ججوں کے لیے ایک قابل قدر پلیٹ فارم بن گیا ہے

جہاں انصاف کی فراہمی سے وابستہ افراد کو مختلف معاملات کے حوالے سے ایک دوسرے کے نکتہ نظر سے آگاہی ملتی ہے۔

اس کانفرنس کی بدولت بنچ اور بار کے مابین باہمی روابط اور مفاہمت کو فروغ ملنے سے ملک بھر کی وکلاء برادری میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے جس سے نئے تصورات جنم لیتے ہیں۔

لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے تعاون سے سپریم کورٹ اس اہم ترین مقصد کے حصول کی طرف پیشرفت پر نازاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ کی ذمہ داری میرے کندھوں پر آ پڑی ہے۔

پچھلے چند سالوں میں درپیش چیلنجز کے باعث عدلیہ کی فعالیت بڑھنے سے اس کے وقار میں بھی اضافہ ہوا ہے اور وہ ریاست کے ایک قابل قدر ستون کے طور پر سامنے آئی ہے۔

اسی عرصے میں عدلیہ نے آئین شکنی کی روایت کو توڑا اور قانون کی حکمرانی سے متعلق اپنے سماجی کردار کو توسیع دی جس سے عوام میں جمہوری اقدار اور بنیادی حقوق کے حوالے سے شعور بڑھا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کی اجتماعی کوششوں کی بدولت 2007ء کے بعد یہ عدالت رسمی آئینی عدالت سے انسانی حقوق کی علمبردار سپریم کورٹ کی شکل میں سامنے آئی ہے جس کے بعد عدالت نے متعدد بار واضح کیا کہ آئین کی تشریح قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے عوامی مفاد اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے ہونی چاہئے اور اس کا اظہار عدالتی نغمے ”انصاف سب کے لیے “ میں بھی کیا گیا ہے۔

دوہزار سات کے بعد اجتماعی دانش نے ہمیں پانچ بہترین اوصاف سے آشنا کیا ہے یعنی کہ محض لفظی آئینی تحفظ کی بنیاد پر رسمی آئینی جواز سے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ ممکن نہیں۔

درحقیقت عوام کی نظروں میں سپریم کورٹ کا مقام انصاف کے اقدار کا حقیقی نگہبان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو صرف آئینی طور پر ہی نہیں بلکہ بطور ادارہ مقننہ اور انتظامیہ کے اقدامات پر نظر رکھنے کا اختیار ہے۔

سپریم کورٹ کے نظرثانی کے اختیار کو مختلف شعبوں تک توسیع دی گئی جو ماضی میں نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ نہ صرف آئینی جمہوریت کے تحفظ اور آئین کی پامالی کو روکنے کے لیے آئینی ذمہ داری پوری کر رہی ہے بلکہ اداروں کے درمیان غیر مرئی تناؤ کا خاتمہ بھی کر سکتی ہے۔

عدلیہ نے ایسی اقدار کو مستحکم بنا دیا ہے جن سے جمہوریت کو فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ غیر جمہوری رحجانات کا بھی سد باب ہو سکے اوریہ اس لیے ممکن ہوا ہے کہ ہمارا آئین موثر جمہوریت کا تصور دیتا ہے اور اگر عدلیہ اپنا کردار درست طور پر ادا نہ کرے تو یہ جمہوریت محض رسمی جمہوریت رہ جاتی ہے جہاں فرد کو حقوق نہ ملیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کا کردار روز بروز اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے عوام کے اعتماد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

انتظامی فعالیت کے فقدان کے باعث عوام نے بڑی تعداد میں عدالتوں سے رجوع کیا جس کی وجہ سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کو درپیش چیلنجز کے پیش نظر ہمیں آئین کے آرٹیکل 199کی حدود کا بھی جائزہ لینا ہو گا جس کے تحت ہائی کورٹ کو اختیارات حاصل ہیں جبکہ آئین کا آرٹیکل 184(3) عوامی معاملات میں سپریم کورٹ کو براہ راست نوٹس لینے کا اختیار دیتا ہے۔

اگر ایسا نہ کیا گیا تو جھوٹے مقدمات کی لائن لگ جائے گی۔

ہمیں گڈ گورننس اور قانون کی حکمرانی کے درمیان علامتی تعلق کو بھی ذہن میں رکھنا ہو گا۔

سپریم کورٹ نے حالیہ برسوں میں ایسے لاتعداد مقدمات بھی سنے جو انتہائی حساس نوعیت کے تھے مثلاً کوئٹہ اور کراچی میں امن امان کی صورتحال سے متعلق مقدمات جن میں سپریم کورٹ کے سامنے براہ راست انتظامی غلطیاں سامنے آئیں، تاہم سپریم کورٹ کی وجہ سے وہاں کے حالات اور ان کی بنیادی وجوہا ت جاننے میں بھی مدد ملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین سے ہٹ کر معمولی قدم بھی انصاف کے نظام میں دراڑیں ڈال سکتا ہے جس کے اثرات مستقبل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق مقدمات کے فیصلے صرف وقتی نہیں بلکہ آئندہ کے لئے بھی موثر ثابت ہوں۔

آئین کاآرٹیکل 184(3) سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار دیتا ہے اور یہ اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ عدالت عظمیٰ کسی درخواست یا اطلاع کی روشنی میں سماجی یا روایتی وجوہات کی بناء پر سپریم کورٹ تک رسائی نہ رکھنے والے افراد تک پہنچ سکتی ہے۔

خطاب میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس ضمن میں انہوں نے اسی سال چترال کے نواحی علاقہ وادی کیلاش کے لوگوں کو ملنے والی دھمکیوں سے متعلق از خود نوٹس کیس کی جانب مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ انتہائی شریف اور پرامن ہیں جن سے پاکستان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تاہم مسئلہ صرف یہ ہے کہ ان کے مخصوص جغرافیائی اور سماجی حالات نے انہیں باقی ملک سے الگ کر رکھا ہے۔

اگر اُن کو ملنے والی دھمکیوں پر سپریم کورٹ آنکھیں بند کر لیتی تو وہ مزید تنہائی کا شکار ہو جاتے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں