دنیاۓ صحافت: داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

اپ ڈیٹ 20 اپريل 2014
اہل قلم کو ذاتی رنجش، اختلافات  اور بے حسی کے خول سے باہر نکلنا ہوگا- نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن اگر یونہی اپنی صفوں میں لڑائیاں جاری رہیں تو آزادی اظہار کے دشمن ایک ایک کو چن چن کر مارتے رہیں گے، اور ایک وقت ایسا آۓ گا جب صحافت جیسے جراتمندانہ پیشے کا کوئی نام لیوا باقی نہیں بچے گا-
اہل قلم کو ذاتی رنجش، اختلافات اور بے حسی کے خول سے باہر نکلنا ہوگا- نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن اگر یونہی اپنی صفوں میں لڑائیاں جاری رہیں تو آزادی اظہار کے دشمن ایک ایک کو چن چن کر مارتے رہیں گے، اور ایک وقت ایسا آۓ گا جب صحافت جیسے جراتمندانہ پیشے کا کوئی نام لیوا باقی نہیں بچے گا-

ابھی تین ہفتے پہلے ہی تو ایکسپریس نیوز کے معروف تجزیہ نگار اور صحافی رضا رومی پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا، پاکستانی عالم صحافت ابھی اس جھٹکے سے سنبھالنے بھی نہ پایا تھا کہ ایک اور روح فرسا خبر نے شہرِ باخبر کی فصیلیں ہلا کر رکھ دیں- جیو نیوز کے اینکر اور ممتاز صحافی حامد میر پر ہفتے کی شام کراچی ائیرپورٹ سے کچھ ہی دور قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں وہ شدید زخمی ہوگۓ-

حملے کی خبر پھیلتے ہی، سوشل میڈیا پر صحافیوں، دانشوروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے مذمتی پیغامات اور اظہار افسوس کا تانتا بندھ گیا- ان میں سے ہر شخص اپنے نظریاتی اختلاف سے بالا تر ہو کر میر صاحب کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہا تھا-



یہ سب کون کر رہا ہے؟ کیوں کر رہا ہے؟ کیا ثابت کرنا چاہتا ہے؟

ان تمام سوالات پر قیاس آرائیاں ہوتی رہتی ہیں، فی الوقت بھی سوشل میڈیا پر یہی بحث جاری ہے- اس وقت بھی ہو رہی تھیں جب رضا رومی پر قاتلانہ حملہ ہوا-

ہر بار جب دنیاۓ صحافت کو نشانہ بنایا جاتا ہے تب یہی بحث نۓ سرے سے شروع ہوجاتی ہے- ریاستی و غیر ریاستی عناصر کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے- حکومت کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں- ناانصافی اور ظلم و ستم کا رونا رویا جاتا ہے-

یہ سب اپنی جگہ ٹھیک ہے، لیکن اس سے آگے کیا کیا جا رہا ہے؟

پیشہ ورانہ رقابت اور نظریاتی اختلافات صرف شعبہ صحافت کا خاصہ نہیں، یہ تقریباً ہر پیشے میں موجود ہے- شعبہ صحافت کا ہر لکھاری ایک فوجی ہے، وہ یہ جنگ قلم سے لڑتا ہے اور کاغذ اسکا میدان جنگ ہوتا ہے-

عام جنگی ایتھکس (ethics) کی طرح یہاں بھی ایک فوجی کو اکیلا نہیں چھوڑا جاسکتا، حقائق سے نظریں پھیر لینا اور یہ سوچ کر بیٹھ جانا کہ یہ ہماری جنگ نہیں، سراسر حماقت ہے-

حامد میر پر ہونے والا حملہ یہ واضح پیغام ہے کہ دنیاۓ صحافت کو متحد ہونے کی ضرورت ہے- 'ڈالر خور'، 'را کا ایجنٹ'، 'یہودی ایجنٹ'، 'سعودی ایجنٹ'، 'طالبان رپورٹر'…. ایک صحافی کو اس طرح کے القابات دے کر ہم اپنے فرائض سے سبکدوش نہیں ہوسکتے-

اہل قلم کو ذاتی رنجش، اختلافات اور بے حسی کے خول سے باہر نکلنا ہوگا- نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن اگر یونہی اپنی صفوں میں لڑائیاں جاری رہیں تو آزادی اظہار کے دشمن ایک ایک کو چن چن کر مارتے رہیں گے، اور ایک وقت ایسا آۓ گا جب صحافت جیسے جراتمندانہ پیشے کا کوئی نام لیوا باقی نہیں بچے گا-

انیس سو بانوے سے اب تک ہلاک ہونے والے صحافیوں میں سے اکسٹھ فیصد سیاست کے موضوع پر لکھتے تھے، جبکہ انتالیس فیصد جنگ، چھبیس فیصد جرائم، پندرہ فیصد بدعنوانی اور تیرہ فیصد انسانی حقوق پر لکھتے تھے- ان اعداد و شمار سے صاف پتا چلتا ہے کہ اصل خرابی کی جڑ کہاں ہے-

آزادئ اظہار میں رکاوٹ ڈالنا، صحافیوں کو ڈرانا دھمکانا یہ کوئی آج کی بات نہیں، لیکن پہلے وقتوں میں ایک صحافی کو ڈرانا دھمکانا محض مار پیٹ تک ہی محدود تھا. وجہ یہ تھی کہ ایک صحافی پر تشدد پوری دنیاۓ صحافت پر ظلم تصور کیا جاتا تھا اسلئے صاحبان اثر و رسوخ ایسے رسک لینے گریز کرتے تھے- اب ایک صحافی کو بیدردی سے قتل بھی کر دیا جاۓ تو اہل قلم تماشائی بنے رہتے ہیں- جب ایسی صورتحال ہوگی تو آزادئ اظہار کے دشمنوں کی ہمتیں تو بڑھیں گی ہی-

اہل قلم کو اپنی صفوں میں اتحاد کی ضرورت ہے خصوصاً الیکٹرانک میڈیا پر جہاں چہرے اور الفاظ دونوں کی اہمیت ہے- یہ کہنا کہ 'یہ ہمارے چینل کا مسئلہ نہیں'، یا 'جب ہم پر مصیبت آئی تھی تب کوئی ہمارے ساتھ نہ تھا تو ہم کیوں ان کے لئے سوچیں'، یا اس ڈر سے کہ کہیں انکی ریٹنگ نہ بڑھ جاۓ، اس طرح کی بچکانہ اور خود غرض سوچوں سے انڈسٹری کو باہر نکلنے کی ضرورت ہے ورنہ جس دن آپ کی باری آۓ گی آپ کے لئے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں بچے گا-


ہفتے کی شب ایکسپریس نیوز کے سینئر تجزیہ نگار رضا رومی اور ڈان کی معروف لکھاری رافعہ زکریا، سوشل ویب سائٹ ٹویٹر پر یہی پیغام دیتے نظر آۓ-


دنیاۓ صحافت کے درمیان اس وقت اتحاد کی سخت ضرورت ہے، پیشہ ورانہ اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوۓ تمام چینلز کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کی ضرورت ہے- اپنی سلامتی اور حق اظہار کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ ایسے فیصلے کیے جائیں جن سے ریاستی و غیر ریاستی عناصر کو واضح پیغام پنہچے- انہیں یہ علم ہو کہ دنیاۓ صحافت منتشر نہیں اور ایک صحافی پر حملہ تمام صحافیوں کے حقوق غصب کرنے کے مترادف ہے-

ضرورت ہے کہ حکومت کو بےحسی کے کنویں سے باہر نکالا جاۓ اور صحافیوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا جاۓ- تمام ریاستی و غیر ریاستی کرداروں کو کسی قسم کا ایئر ٹائم دینے سے انکار کردیا جاۓ-

لیکن ان سب سے پہلے اپنے اندر متحد ہونے کی ضرورت ہے- ظلم و جبر کے اس نقار خانے میں فقط ایک طوطی کے بولنے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا، اس کے لئے سب کا یک زبان اور یک آواز ہونا ضروری ہے- یہ یاد رکھیے جو آگ ابھی دوسروں کے گھروں میں لگی ہے اسے آپ کے دروازے تک پنہنچنے میں دیر نہیں لگے گی-


لکھاری: ناہید اسرار

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

zameer afqai Apr 20, 2014 08:10pm
پاک فوج پر الزامات کس کی خدمت؟ پاکستان اگر اس وقت متحد اور سلامت ہے تو وہ جمہوریت، ہماری مذہبی و سیاسی جماعتوں ،گروہوں یا افراد کی وجہ سے نہیں بلکہ اسے متحد سلامت رکھنے میں پاکستان کے صرف ایک ادارئے کا مرہون منت ہے اور وہ ادارہ ہے پاک فوج،،،پاک فوج پر الزامات لگانے سے پاکستان دشمن حلقوں میں مشہور ہونے والوں کو سوچنا چاہے کہ وہ پاکستان کی قیمت پر کس کی خدمت کر رہے ہیں؟ اور دوسری بات حامد میر اور رضا رومی میں کچھ تو فرق کرنا چاہےے ،رضا رومی پاکستان دشمن،اور انتہا پسند قوتوں کے خلاف ہے
Shawn Apr 21, 2014 04:35am
@zameer afqai: What Pakistan Army has done since independence? Have they won any wars? Have they contributed in any other positive way other than coming to power whenever they like.
فہیم Apr 21, 2014 05:24pm
جیونیوزاور حامدمیر جیسے صحافی اور اینکرپرسنزکوغلط اندازے، مفروضے ،توہمات اور وسوسوں کے باعث اپنے قومی اداروں پر اِس قسم کے الزامات لگانے سے پہلے اچھی طرح سے سوچ لیناچاہیے تھاکہ وہ کیا کرنے جارہے ہیں...؟اِن کے اِس الزام سے شاید اِنہیں یا اِن کے ادارے جیونیوزکو تواغیارسے کچھ فوائد حاصل ہوں مگر اِن کی جانب سے قومی اداروں پر اِس قسم کے لگانے جانے والے الزامات سے مُلک وقوم اور قومی اداروں کا وقارساری دنیامیں مجروح ہوگا،پھرجس کا خمیازہ ساری قوم کو صدیوں تک بھگتناپڑسکتاہے