خوفناک نالائقی

24 اپريل 2014
مسئلہ صرف آرٹیکل 6 کے تحت فوج کے سابق سربراہ کے 'سنگین غداری' کے مقدمے کی سماعت کا تھا، تو 1999 کی بغاوت زیادہ (قانونی طور پر) قابل سزا جرم تھا-
مسئلہ صرف آرٹیکل 6 کے تحت فوج کے سابق سربراہ کے 'سنگین غداری' کے مقدمے کی سماعت کا تھا، تو 1999 کی بغاوت زیادہ (قانونی طور پر) قابل سزا جرم تھا-

اکثر و بیشتر خود ہی کے پیدا کردہ بحرانوں سے جس نالائقی اور نامعقول انداز میں آجکل نبٹا جا رہا ہے وہ انتہائی تشویش کا سبب ہونا چاہئے کہ اس سے پاکستان کو درپیش کسی بھی دوسرے چیلنج کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرہ لاحق ہے- مزید خطرے کی بات یہ ہے کہ یہ نالائقی تقریباً ہر اہم ادارے میں سرایت کر چکی ہے-

ذرا معاملات کی موجودہ صورت پر نظر ڈالیں- مانا کہ میڈیا، بالخصوص الیکٹرانک میڈیا، شاید ملٹری اور حکومت کے درمیان تناؤ کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہو تاہم آپ کسی بھی طریقے سے آرمی چیف کے اپنے ادارے کے وقار کو برقرار رکھنے کے عزم کو پڑھیں تو اس بارے میں کوئی شبہ نہیں رہے گا کہ اصل معاملہ کچھ اور ہی ہے-

اگر بنیادی مسئلہ صرف آرٹیکل 6 کے تحت فوج کے سابق سربراہ کے 'سنگین غداری' کے مقدمے کی سماعت کا تھا، اور وہ بھی اس بحث میں پڑے بغیر کہ کٹہرے میں صرف جنرل پرویز مشرف کو کھڑا کیا جا رہا ہے اور اس بات پر تو بالکل بھی بحث کئے بغیر کہ 1999 کی بغاوت زیادہ (قانونی طور پر) قابل سزا جرم تھا، اپنے آپ میں خاصا مشکل ہوتا-

تاہم اسے ایک بحران کا درجہ اس لئے مل گیا کیونکہ شریف حکومت کے کلیدی نمائندوں اور فوج کے درمیان اس بات پر "انڈراسٹینڈنگ" ہو گئی تھی کہ ایک بار ریٹائرڈ آرمی چیف پر فرد جرم عائد کرنے کے بعد انہیں باہر جانے دیا جائے گا- اس بات کو کہ کوئی "انڈراسٹینڈنگ" موجود تھی، دو حقیقتوں سے تقویت ملتی ہے-

پہلے تو یہ کہ کئی ہفتوں کے ردوکدر کے بعد، مشرف جو کہ فوج کی آغوش (آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیولوجی) میں رہنے کے بعد یکایک خصوصی عدالت میں پیش ہوتے ہیں، ایک بظاہر الوادعی تقریر کرتے ہیں، ان پر فرد جرم عائد کی جاتی ہے اور اس کے بعد وہاں سے انہیں اتنی تیزی منتقل کر دیا گیا کہ جج بھی عدالت سے نہیں نکلے تھے-

عدالت نے ان کے وکیلوں سے کہا کہ اس کے پاس ان کی نقل و حرکت کی آزادی پر پابندی لگانے کی کوئی وجہ نہیں جبکہ وہ مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں- تاہم، اس نے یہ بھی کہا کہ انہیں بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے حکومت بلکہ سیدھا وزارت داخلہ سے رجوع کریں جس نے پہلے ان کا نام بدنام زمانہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا تھا-

جبکہ عدالت کے کمرے میں یہ ڈرامائی پیشرفت جاری تھی، اسلام آباد ائیرپورٹ پر ایک ایگزیکٹو جیٹ اترتا ہے (جو کہ ریٹائرڈ جنرل کے برادر نسبتی کی یا تو ملکیت ہے یا انہوں نے کرائے پر حاصل کیا ہوا ہے) اور پھر یہ جیٹ ائیرپورٹ کے اس خاص حصے میں پارک کر دیا جاتا ہے جو پاکستان ایئر فورس کے لئے مختص ہے- اگر سابق حکمران کے فوری اخراج کا اگر کوئی حقیقی امکان نہیں تھا تو بھلا یہ جیٹ پاکستان کیوں بھیجا گیا؟

ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے کچھ ڈیڑھ ہوشیار بننے کی کوشش کی- تاہم عدالت کے نظریات ہی اور تھے- اہم حکومتی شخصیات نے شاید اس امید پر فوج سے "انڈراسٹینڈنگ" کر لی تھی کہ عدالت، جنرل مشرف کو باہر جانے کی اجازت دے دے گی جس سے حکومت کو بے بس تماشائی کی حیثیت کا دعویٰ کرنے کا موقع مل جائے گا-

تاہم، افتخار چوہدری دور کے جج، اتنے بھی بھولے نہیں کہ خود اپنے ادارے کے "وقار" کا دفاع نہ کر سکیں اور مجھے تو یہ بھی شبہ ہے کہ وہ اس بات کی بھی اہلیت رکھتے ہیں کہ اپنے اعمال کے سیاسی مضمرات بھی جان سکیں- گیند کو ایک بار پھر حکومت کے کورٹ میں اچھال دیا گیا-

اچانک حکومت کی صفوں میں گھبراہٹ پھیل گئی- جہاں ملا-عسکریت پسندوں-فوج کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے پی ایم ایل - این کی دنیا کے چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف جیسے لوگ مشرف کو فوری طور پر نکالنا چاہتے تھے، کابینہ کے دوسرے ممبران نے ایسے کسی بھی اقدام کی کھل کر مخالفت کی-

ریٹائرڈ جنرل کو کوئی بھی ریلیف دینے کے مخالفین چاہتے تھے کہ اپنے نکتہ نظر کے دفاع کیا جائے اور پچھلے دروازے سے ان کے کسی بھی ممکنہ اخراج کو روکنے کے لئے انہوں نے عوام میں جانے کا فیصلہ کیا- ان میں سے چند تو ایک اصولی موقف کی بات کر رہے تھے، لیکن ان ہی میں سے کم از کم ایک شخص نے ایسی زبان استعمال کی جس نے شاید فوج کو اشتعال دلا دیا ہو-

وفاقی وزیر ریلوے، خواجہ سعد رفیق کی "مرد کا بچہ بن" والی بڑھک شاید ریٹائرڈ جنرل مشرف کو اتنی نہ لگی ہو تاہم ایسا لگتا ہے کہ موجودہ آرمی چیف، اس چیلنج سے زرا بھی نہیں ہچکچائے لہٰذا ان کا "وقار کے دفاع" والا بیان آیا-

اسی کے ساتھ، موجودہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی پارلیمنٹ میں کئی سال پہلے کی گئی تقریر پر فوج کی رپورٹ کی جانے والی ناراضگی اور غصہ بھی بلاجواز ہے- اصل میں تو جی ایچ کیو کے لئے تو بہتر ہو گا کہ وہ جہاندیدہ پارلیمنٹیرین کی جانب سے اٹھائے جانے والے نکات پر اچھی طرح غور کریں-

لیکن کیا جی ایچ کیو اپنی کوتاہیوں کی عکاسی کرنے کے لائق ہے؟ میں جانتا ہوں کہ میں ہفتوں سے ایک ہی ریکارڈ کی بار بار گردان کئے جا رہا ہوں تاہم جو معاملات کا حال ہے اس کا جواب افسوس کے ساتھ نفی میں ہی ہو گا- اور پھر بدقسمتی سے اصل میں تو اس کے مضمرات تو ہیں ہی تباہ کن-

دی نیوز میں لکھتے ہوئے (اور وہ بھی سامنے کے صفحات پر نہیں)، ملک کے ممتاز سیکورٹی امور کے نامہ نگار عامر میر کا کہنا ہے کہ فوج نے اپنے دیرینہ اتحادی اور خود کے پالے پوسے افغان طالبان کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کر لیں کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں یا پھر ٹی ٹی پی کے ساتھ-

یہ رپورٹڈ انتباہ تب دیا گیا جب دونوں طالبان کے درمیان تعاون کے کافی ثبوت سامنے آئے- مجھے شبہ کہ جیسے ٹی ٹی پی مذاکرات سے وقت حاصل کر رہی ہے ویسے ہی افغان طالبان بھی وقت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے- وہ پاکستان کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائیں گے اور انتظار کریں گے کہ امریکہ اور نیٹو افواج افغانستان سے نکل جائیں تا کہ وہ اپنا اصل رنگ دکھا سکیں-

یہ ٹھیک ہے کہ ملا عمر کی زیر قیادت، طالبان عالمی جہاد نہیں چاہتے لیکن القاعدہ ہی کی طرح، وہ بھی شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں اور انٹرنیشنل جہادیوں کو پناہ دیتے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے- اور اس کام کے لئے ان کی حمایت اور امداد کا ان کے طالبان بھائیوں سے زیادہ کون مستحق ہو گا جو ان کے پڑوسی پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے لئے برسرپیکار ہیں؟

یہ انتباہ اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا اسٹریٹجک گہرائی کا نظریہ تار تار ہو چکا ہے- جتنا جلد ہم اس حقیقت کا اعتراف کریں اور خود کو اس فریب سے باہر نکالیں، بہتر ہو گا- پاکستانی ریاست کو خود کو منوانے اور اکیسویں صدی کی ایک قابل عمل ریاست کے طور برقرار رہنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ مذہبی جنونیوں کے ساتھ تمام تر مراسم ختم کر دے-

کیا ضروری اقدامات اٹھانے کے لئے یہ مدھوم امید رکھنا غلط ہے؟

انگلش میں پڑھیں

لکھاری ڈان کے سابقہ ایڈیٹر ہیں-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں