اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی منصوبوں پر سرکاری اخراجات کا مطلب ہے کہ عوام کے معیارِ زندگی کو بہتر بنایا جائے، جبکہ جاری مالی سال کے دس مہینوں میں یہ ہدف نمایاں طور پر پیچھے رہ گیا ہے، دوسری جانب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے عائد کردہ حدود کے اندر حکومت کی ترجیح مالیاتی خسارہ دور کرنا تھی۔

منصوبہ بندی کمیشن کے مطابق اٹھارہ اپریل تک حکومت نے وفاقی وزارتوں کے لیے مختص سال بھر کے فنڈز کا صرف چالیس فیصد ہی جاری کیا ہے۔ حکومت کے منظور کردہ تقسیم کے طریقہ کار کے تحت یہ وزارتیں مختص فنڈز کا تقریباً پچھتر فیصد حصہ اب تک خرچ کر چکی ہیں۔

362 ارب روپے کے مختص فنڈز میں سے 145 ارب روپے جاری کیے جاچکے ہیں، جبکہ تقریباً 270 ارب روپے کی ادائیگی ان دس مہینوں کے دوران کی جانی چاہیٔے تھی۔

سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کی جانب سے کچھ اہم کارپوریشنوں اور خصوصی علاقوں کی ترقیاتی اسکیمیں جن میں آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے شامل ہیں، کے لیے ساڑھے نو ماہ کے دوران 271 روپے کی رقم جاری کی گئی، جو اس سال کے لیے مختص کی گئی رقم 540ارب روپے کا نصف حصہ بنتی ہے۔

ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ’’حکومت کو خود اپنے وضع کردہ تقسیم کے طریقہ کار کی پیروی میں اب تک 405 ارب روپے کی ادائیگی کی جانی چاہیٔے تھی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ترقیاتی پروگرام کے لیے فنڈنگ کے پیچھے ریونیو میں مسلسل کمی اہم وجہ تھی۔اس لیے کہ حکومت کی اس وقت اولین ترجیح مالیاتی خسارے کا ہدف حاصل کرنا تھا، تاکہ آئی ایم ایف کی نظر میں خود کو بہتر ثابت کرکے اس کے اقتصادی امدادی پیکیج کے تسلسل کو قائم رکھا جاسکے۔

مذکورہ اہلکار نے بتایا کہ اس طرزعمل سے کچھ وزارتیں اپنے لیے مختص رقم کا کم سے کم صفر اعشاریہ دو فیصد ہی حاصل کرسکی ہیں۔ اس کے عوام کے معیارِ زندگی پر دیرپا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے، منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر ہوسکتی ہے۔

پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈویژن جو پی ایس ڈی پی کی نگرانی کے لیے ذمہ دار ہے، خود اس کو بائیس کروڑ ساٹھ لاکھ روپے وصول ہوئے ہیں، جو اس کے لیے مختص رقم 125.5 ارب روپے کا صفر اعشاریہ دو فیصد سے بھی کم ہے۔

وزارتِ دفاع کو سولہ کروڑ چھیاسی لاکھ روپے دیے گئے ہیں، جو پی ایس ڈی پی کی جانب سے مختص رقم 3.54 ارب روپے کا چار اعشاریہ سات فیصد ہے۔

دفاعی پیداوار ڈویژن کو دس ماہ کے دوران اس سال کے لیے مختص رقم 2.3 ارب روپے میں سے اننچاس کروڑ نوّے لاکھ روپے دیے گئے ہیں، جو کل رقم کا 21.7 فیصد حصہ ہے۔ تعلیم اور تربیت کی وزارت کو 5.34 ارب روپے کا چھ اعشاریہ چار فیصد حصہ چونتیس کروڑ بیس لاکھ روپے جبکہ ہاؤسنگ اور ورکس کی وزارت کو 3.8 ارب روپے کی مختص رقم کا اکیس فیصد یعنی انیاسی کروڑ روپے دیے گئے ہیں۔

پانی و بجلی کی وزارت جو حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک رہی ہے، کو 27.8 ارب روپے موصول ہوئے ہیں، جو اس کے لیے مختص حصے کی رقم 57.8 ارب روپے کا صرف چالیس فیصد حصہ ہے۔

پاکستان اٹامک انرجی کمیشن وفاقی اداروں میں خوش قسمت رہا، جسے دس ماہ کے دوران مختص فنڈز کا تقریباً پچاسی فیصد حصہ موصول ہوا۔اس ادارے کو بجٹ میں مختص کی گئی رقم 52.3 ارب روپے میں سے 44.5 ارب روپے دیے گئے۔

توانائی کے شعبے کو 78 فیصد کی ادائیگی کی گئی۔ اس شعبے کو مختص رقم 51.5 ارب روپے میں سے 39.8 ارب روپے موصول ہوئے۔

حکومت نے ترقیاتی پروگرام کے لیے مجموعی طور پر 1.15 ٹریلین روپے مختص کیے تھے، اس میں سے 540 ارب روپے وفاقی پی ایس ڈی پی کے لیے جبکہ 615 صوبائی سالانہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے تھے۔

حکومت کے اعلان کردہ ادائیگی کے طریقہ کار کے تحت ایک مالی سال کے پہلے نصف میں کل مختص رقم کا چالیس فیصد حصہ ادا کرنا ضروری ہے، بیس بیس فیصد جولائی -ستمبر اور اکتوبر-دسمبر کی سہ ماہیوں کے دوران اور اس کے بعد تیس فیصد جنوری-مارچ اور اتنی ہی رقم تیس جون تک ادا کی جانی چاہیٔے۔

ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ریونیو جمع کرنے کے تخمینہ کا ہدف حاصل کرنے میں سست رفتاری اور آئی ایم ایف کی طرف سے عائد کردہ ملک کے مالیاتی خسارے کی پابندی کی بنا پر ترقیاتی پروگرام کے اخراجات پر کنٹرول ہی حکومت کے لیے ایک آسان راستہ رہ گیا تھا۔

وزارتِ خزانہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو مجموعی ترقیاتی پروگرام میں تقریباً 834 ارب روپے تک کی کمی کرنے کی ضمانت دی تھی، جو بجٹ میں مختص 1.15 ٹریلین کا 28 فیصد سے کم ہے۔

افہام و تفہیم کے ایک حصے کے تحت 2013-14ء کے لیے پی ایس ڈی پی کے ہدف کو بجٹ میں اعلان کردہ 540ارب روپے سے کم کرکے 420 ارب روپے تک کردیا گیا ہے، یہ کمی بائیس فیصد تک کی گئی ہے۔صوبوں کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 33 فیصد تک کٹوتی کرکے 615 ارب روپے سے 414 روپے تک کردیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں