'پاک - افغان پراکسی وار دوبارہ شروع ہوسکتی ہے'

اپ ڈیٹ 22 اپريل 2014
پاکستانی فوج کے اہلکار چمن میں پاک افغان سرحد پر پاکستان میں داخل ہونے والے افغانی باشندوں کی تلاشی لے رہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
پاکستانی فوج کے اہلکار چمن میں پاک افغان سرحد پر پاکستان میں داخل ہونے والے افغانی باشندوں کی تلاشی لے رہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

واشنگٹن: پیر کو امریکا کے ایک اخبار نے اپنی رپورٹ میں یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اس خطے سے امریکی انخلاء کے بعد پاکستان اور افغانستان اپنی پراکسی جنگ کا دوبارہ آغاز کرسکتے ہیں، جبکہ ایک دوسرے اخبار کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت فوج کی مرضی کے خلاف طالبان کے ساتھ مذاکرات کررہی ہے۔

لاس اینجلس ٹائمز نے یاد دلایا کہ پاکستان کی سول حکومت نے اپنا سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے ملک کی طاقتور فوج کو پیچھے دھکیل دیا تھا، اور جب سے وزیراعظم نواز شریف نے جون میں اپنا عہدہ سنبھالا ہے، اس حوالے سے بہت سے اقدامات اُٹھائے ہیں۔

انہوں نے فوجی اہلکاروں کے خلاف عسکریت پسند قیدیوں کی گمشدگی کا مقدمہ قائم کیا، طالبان باغیوں کے ساتھ امن مذاکرات شروع کیا، اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کی فردِ جرم عائد کی۔

حکومت اور عدالتوں نے علیل مشرف بیرون ملک علاج کی درخواستوں کو مسترد کردیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس فوج و سِول کھینچاتانی نے امریکا کو تذبذب میں مبتلا کردیا ہے، جو جمہوری اصلاحات کا بھی خواہشمند ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوج کی اس خواہش کی بھی حمایت کرتا ہے، جو طالبان عسکریت پسندوں کو نکالنا چاہتی ہے۔

امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ ’’امریکا کے فوجی حکام کو ڈر ہے کہ دسمبر 2014ء میں امریکی فوجی انخلاء کے بعد پاکستانی طالبان کو افغانستان میں آنے جانے کی زیادہ آزادی حاصل ہوجائے گی۔

اخبار نے اشارہ کیا ہے کہ سویلین حکومت نے فوج کے اثرورسوخ کو کم کرکے اس کو اپنی حد میں رکھنے کی کوشش کی ہے، خاص طور پر عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات شروع کرکے۔ ’’ہندوستان کے ساتھ تمام اہم معاملات پر فوج کو پس پشت کردیا ہے، جو اپنے حریف کے ساتھ نرم گوشہ رکھنے کی مخالفت کرتی ہے۔‘‘

نیویارک ٹائمز نے ایک علیحدہ رپورٹ میں حوالہ دیا ہے کہ پچھلے مہینے عسکریت پسندوں کے درمیان اندرونی تنازعات اور دشمنی کا ایک لاوا سا پھوٹ پڑا تھا، جس سے قیامِ امن سے متعلق ان کے عزم پر بہت سے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔

اس ماہ کے اوائل میں طالبان کے حریف گروپس کے درمیان اچانک لڑائی شروع ہونے سے چالیس عسکریت پسند ہلاک ہوگئے تھے، اور ان کی تحریک کے گڑھ میں متشدد اختلاف ظاہر ہوگئے تھے۔

اس رپورٹ کے مطابق امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے ساتھ قیادت کے بحران کا آغاز ہوگیا تھا۔ اب طالبان کی قیادت مولانا فضل اللہ کے پاس ہے، جو اپنے کمانڈروں کو متحد رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔

امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ طالبان نے محسود قبیلے کے حریف دھڑوں کے اختلافات ختم کرنے کے لیے مولانا فضل اللہ کا انتخاب کیا تھا، لیکن اس کے برعکس لڑائی میں مزید اضافہ ہوگیا، محسود قبیلے نے قبیلے سے باہر کے فرد کو اپنا لیڈر ماننے سے انکار کردیا، ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل اللہ کا تعلق سوات سے تھا۔

اس اخبار نے یہ حوالہ بھی دیا کہ محض قبائلی یا قیادت کے معاملے پر اختلافات ٹی ٹی پی کے اندر لڑائی نہیں جاری ہے۔ حقانی نیٹ ورک، جس کا وزیرستان میں بہت زیادہ اثرورسوخ ہے، طالبان کو پاکستان کے ساتھ قیامِ امن پر زور دے رہا ہے، تاکہ امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں اس کو استعمال کیا جاسکے۔

دوسری جانب مولانا فضل اللہ پاکستان کے ساتھ جنگ پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔

روپورٹ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پچھلے ہفتے کابل میں سابق اور موجودہ افغان حکومت کے اہلکاروں نے ایک پالیسی کا انکشاف کیا، جس کے تحت طالبان کے ان دھڑوں کو پناہ گاہ اور محدود مالی امداد فراہم کی جائے گی، جو پاکستان کے اندر اپنی لڑائی دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں