ماتا کا بُلاوا

22 اپريل 2014
۔—وائٹ اسٹار فوٹو۔
۔—وائٹ اسٹار فوٹو۔

کڑی دھوپ اور دشوار پہاڑی راستوں سے گزرتی ہوئی بسیں جن پر 'اللہ نگہبان' اور 'ماشاءاللہ' جیسے الفاظ لکھے ہیں، کئی گھنٹے سفر کرنے کے بعد اپنی منزل شری ماتا ہندلاج یا نانی مندر پہنچتی ہیں۔

عقیدت مند مندر سے چند کلو میٹر پہلے واقع ایک کیچڑ زدہ دریا کے کنارے ڈوبکیاں بھی لگاتے ہیں۔ ہندو عقیدت مندوں سے کھچا کھچ بھری اس بس کے ڈرائیور علی شیر کے مطابق 'یہ پانی ان کے لیے صاف ہے۔'

علی شیر نے بتایا 'ہم نے اس سفر کا آغاز ٹنڈو محمد خان سے کیا تھا جس کے بعد کراچی، کینجھر اور دیگر مقامات پر بھی عقیدت مند رکتے ہیں'۔


کراچی: تاریخی مندر خطرے میں


'یہ ان کے لیے حج کی طرح ہے اور مختلف مقامات پر رکنا عمرے جیسا۔'

بسوں پر اسلامی نقوش کے حوالے سے ایک سوال پر بس کنڈکٹر عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ 'ہماری اپنی تعلیمات ہیں اور ان کی اپنی۔ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں اور نہ انہیں ہم سے'۔

عمارت کے اندر چار مختلف مندر موجود ہیں جن میں سے سب سے بڑا نانی مندر ہے۔

ہندلاج مندر میں عقیدت مند پاکستان سمیت دنیا بھر سے آتے ہیں۔ یہاں لگنے والے میلے کے پہلے روز قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ اس سال بولی وڈ اسٹار امیتابھ بچن بھی شریک ہوں گے۔

ایک نوجوان کے مطابق انہوں نے ایک اردو اخبار میں پڑھا تھا کہ بولی وڈ اسٹار اس سال یہاں آئیں گے۔

بے بی نامی ایک خاتون کا کہنا تھا کہ جب وہ ہندوستان جاتی ہیں تو وہاں لوگ ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا انہوں نے کبھی ہندلاج مندر کا دورہ کیا کیوں کہ یہ جگہ ہندوؤں کے لیے بہت مقدس ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہندوستان میں لوگ اکثر ان سے ویزے ملنے میں دشواری کے باعث مندر نہ آ پانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔

لیاری سے تعلق رکھنے والے دھنی موہن کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ مندر تک کا سفر پیدل بھی کرتے ہیں۔

'ہمارے گروپ میں 22 لوگ موجود ہیں جن میں میرے بیٹے، بیٹیاں، بہو اور دیگر شامل ہیں۔'

کراچی میں بھینس کالونی سے تعلق رکھنے والے رجکی کا کہنا ہے کہ ان کے قافلے میں چالیس کے قریب افراد شامل ہیں جبکہ راشن لانے کی ذمہ داری نوجوانوں کی ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہاں تک سفر میں جتنی دشواریاں ہوتی ہیں، ماتا اتنی ہی زیادہ خوش ہوتی ہیں۔

'مندر پہنچنے کے بعد ہمیں سکون کا احساس ہوتا ہے جس سے ہم تازہ دم ہوجاتے ہیں'۔

عقیدت مندوں کو پانی پلا رہے متھن کمار کا کہنا تھا کہ وہ ہر سال یہاں آتے ہیں اور ہر بار دورے کے بعد ان کی زندگی پر مثبت اثرات پڑتے ہے۔

'پہلے یہاں سیمنٹ سے بنی ہوئی فٹ پاتھ تک نہ تھی لیکن اب یہاں ریسٹ ہاؤس اور جنریٹر بھی موجود ہے'۔

کمار نے کہا کہ ان کی تنخواہ ہندلاج شیوا مندلی ادا کرتی ہے جسے حکومت کی جانب سے فنڈز دیے جاتے ہیں تاکہ اس مقدس مقام کی دیکھ بھال کی جاسکے۔

فٹ پاتھ کے کنارے مختلف چیزوں پر لکھے ہندو نقوش فروخت کررہی زرینہ کا کہنا تھا کہ یہاں سیکورٹی بہت سخت ہے اور اہلکار انہیں اندر نہیں جانے دیتے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ لال شہباز قلندر کے عرس کے موقع پر وہاں بھی کاروبار کرتی ہیں لیکن وہاں اس طرح کی سیکورٹی نہیں ہوتی۔

حوالدار عبدالحمید کا کہنا ہے 'ہم نے اشیاء فروخت کرنے والوں کے لیے الگ جگہ مخصوص کی ہوئی ہے اور انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں'۔

انہوں نے بتایا 'آج میلے کا پہلا دن ہی ہے لیکن آنے والے دنوں میں رش بڑھ جائے گا اور یہاں کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہیں ہوگی'۔

ان کا مزید کہنا تھا 'ہر مذہب احترام کا مستحق ہے اور ہم یہاں کسی قسم کی مصیبت کھڑے کرنے والوں کو برداشت نہیں کریں گے۔'

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں