اسلام آباد: جامنی رنگ کی شال اوڑھے مرجان اسلام آباد میں ایک کچی بستی کے ملبے کے درمیان اداسی سے گھوم رہی ہیں۔

یہاں کبھی ان کا گھر ہوا کرتا تھا۔

اسلام آباد کی انتظامیہ نے کچی آبادیوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہے۔

زیادہ تر افغان پناہ گزینوں اور عیسائیوں کی ان بستیوں کو انتظامیہ غیر قانونی قرار دیتی ہیں کیونکہ یہ عسکریت پسندوں کی پناہ گاہیں بنتی جارہی ہیں۔

ریلوے لائن کے قریب واقع مرجان کی بستی کو بلڈوزروں نے گزشتہ پیر مسمار کردیا تھا جس کے بعد سینکڑوں جھوپڑیاں اب ملبے کی شکل میں موجود ہیں۔

ستر سالہ مرجان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اس بستی میں گزشتہ چالیس سال سے آباد تھیں اور کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی کارروائی کے نتیجے میں ان کا گھر تباہ ہوگیا۔

مرجان نے بتایاکہ ان کے شوہر 20 سال قبل گزر گئے تھے جبکہ ان کے دونوں بیٹے بھی مرچکے ہیں۔

'میں ایک غریب عورت ہوں، سی ڈی اے نے میری کیوں نہیں سنی؟'

ایک درجن سے زائد ان کچی آبادیاں میں اسلام آباد میں گھر کا مہنگاکرایہ دینے سے قاصر ہزاروں افراد رہتے ہیں۔

ان بستیوں میں سے کچھ نالوں کے کنارے آباد ہیں۔ ان نالوں کا مقصد شہر سے مون سون کے دوران بارش کے پانی کا نکالنا ہے جبکہ بیشتر کے پاس بجلی، گیس اور صاف پانی جیسی سہولیات تک میسر نہیں۔

سی ڈی اے نے شہر کی 14 بستیوں کی نشاندہی کر رکھی ہے جسے گرایا جائے گا۔ دوسری جانب، متاثرین کو کوئی معاوضہ یا متبادل رہائش بھی نہیں دی جا رہی۔

یہ اقدام ایک ایسے موقع پر سامنے آیا جب حالیہ دنوں اسلام آباد کی پھل اور سبزی منڈی میں دھماکے سے 22 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

یہ 2008ء کے بعد سے دارالحکومت کا جان لیوا ترین واقعہ تھا۔

'شہر کو چلانے والے'

ایک عیسائی بستی میں رہائش پذیر پرویز مسیح نے بتایا کہ سی ڈی اے کے اس اقدام سے ان کی برادری پریشان ہے۔

مسیح نے روتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے پاس نہ کوئی زمین ہے اور نہ کوئی جائیداد۔

'اگر حکومت زمین دے بھی دے تو ہمارے پاس گھر بنانے کے لیے رقم نہیں'۔

انہوں نے کہا کہ یہ بستیاں اچانک وجود میں نہیں آئیں اور سی ڈی اے اس وقت کہاں تھی جب یہاں لوگ آباد ہونا شروع ہورہے تھے؟

انہوں نے حکام پر الزام لگایا کہ انہوں نے رشوت لے کر لوگوں کو یہاں رہنے کی اجازت دی۔

چیئرمین آل پاکستان کچی آبادی ایلائنس عاصم سجاد کے مطابق شہر کی اشرافیہ پرتعیش گھروں میں زندگی گزار رہی ہے جبکہ ان بڑے گھروں میں کام کرنے والے اکثر ملازم اکثر انہی آبادیوں سے آتے ہیں۔

سجاد نے کہا کہ اس شہر کو چلانے والی یہی ورکنگ کلاس آبادی ہے۔

ان میں ڈرائیور، باورچی اور مزدور شامل ہیں جبکہ عیسائیوں کے معاملے میں زیادہ تر کلینرز ہوتے ہیں۔

'چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ آبادیوں ایک ماہ کے دوران ختم کردی جائیں گی تب بھی یہ لوگ غائب نہیں ہوجائیں گے، وہ کہیں اور آباد ہو جائیں گے۔'

سی ڈی اے کی ایک سینئر اہلکار شائستہ سہیل کے کہنا تھا کہ بہت سے ایسے مضافاتی علاقے موجود ہیں جہاں تین ہزار سے پانچ ہزار روپے ماہانہ میں گھر کرایے پر لیا جاسکتا ہے۔

بظاہر یہ کوئی بہت بڑی رقم نہیں تاہم ایک ایسے ملک میں جہاں کم ہنر مند افراد سو ڈالر ماہانہ سے بھی کم کماتے ہیں، ایسے کرایے کے سب متحمل نہیں ہو سکتے۔

سی ڈی اے کی کارروائیوں کی وجہ سے لوگوں میں غصہ بڑھ رہا ہے اور مظاہرے بھی جاری ہیں۔

پادری یوسف مسیح بھٹی نے کہا 'میرے پاس کوئی کلاشنکوف یا کوئی پستول نہیں۔ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ سی ڈی اے والے یہاں کبھی نہ آئیں۔'

تبصرے (0) بند ہیں