پچاس روپے کی کاغذی مائیکروسکوپ

اپ ڈیٹ 23 اپريل 2014
کاغذی خردبین سے نظر آنے والے جراثیم۔ تصویر بشکریہ فولڈسکوپ ٹیم
کاغذی خردبین سے نظر آنے والے جراثیم۔ تصویر بشکریہ فولڈسکوپ ٹیم
اس وقت دنیا میں دس ہزار نمونے آزمائش سے گزررہے ہیں۔ تصویر بشکریہ فولڈسکوپ ٹیم
اس وقت دنیا میں دس ہزار نمونے آزمائش سے گزررہے ہیں۔ تصویر بشکریہ فولڈسکوپ ٹیم
ایک طالبعلم آسانی سے تیار ہونے والی فولڈسکوپ بنارہا ہے ۔ تصویر بشکریہ فولڈسکوپ ٹیم
ایک طالبعلم آسانی سے تیار ہونے والی فولڈسکوپ بنارہا ہے ۔ تصویر بشکریہ فولڈسکوپ ٹیم
یوگنڈا میں طالبعلم مائیکروسکوپ کا معائنہ کررہے ہیں۔ تصویر بشکریہ فولڈسکوپ ٹیم
یوگنڈا میں طالبعلم مائیکروسکوپ کا معائنہ کررہے ہیں۔ تصویر بشکریہ فولڈسکوپ ٹیم

' پرنٹ اور فولڈ' ہونے والی کاغذی مائیکروسکوپ ( خردبین) کے اس وقت تقریباً دس ہزار نمونے اس وقت سائنسدانوں اور دیگر ماہرین کے پاس آزمائش سے گزر رہے ہیں اس کے مزید استعمالات سامنے آسکیں۔۔ توقع ہے کہ یہ ایجاد ایک سادہ اور کم خرچ تشخیصی ( ڈائیگنوسٹک) ٹول کی جگہ استعمال ہوسکے گی۔

دس ہزار مائیکروسکوپس کے اس پروگرام کو گورڈن اینڈ بیٹی مور فاؤنڈیشن کا تعاون حاصل ہے اور اس کے ذریعے فولڈسکوپ کی نہ صرف اس سال تک مختلف طریقوں سے آزمائش کی جائے گی بلکہ لیب مینوئل بھی تیار کیا جائے گا ۔ اسے امریکہ میں ایک بایو انجینیئرنگ ٹیم نے تیار کیا ہے۔ اس کا ڈیزائن جاپانی فن اوریگامی کی طرح ہے اور اس میں چھوٹے لیکن بہت اعلیٰ شیشے ( آپٹکس) استعمال کئے گئے ہیں۔

جس طرح بچے کاغذ الٹ پلٹ کر مختلف اشیا بناتے ہیں اسی طرح یہ خردبین بھی تیار کی جاتی ہے۔

یہ اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے بایو انجینیئر کی ایک ٹیم کی ایجاد ہے جس کے سربراہ مانوو پرکاش ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ' خردبینی عمل ہر ایک کیلئے آسانی سے دستیاب' ہو تاکہ مختلف امراض کی فوری اور کم خرچ تشخیص ممکن ہو۔

' ہماری ٹیکنالوجی ایک بڑے حل کا چھوٹا سا جزو ہے اور اس میں لوگوں کی شمولیت بہت ضروری ہے۔ ہمیں ایسے لوگوں کے وسیع نیٹ ورک کی ضرورت ہے جو عالمی چیلنج پر سوچ بچار کرسکتے ہوں،' '

اس حیرت انگیز خردبین کو فولڈسکوپ کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں دو بہت اہم لینس ہیں جو نمک کے ذروں کے برابر ہیں اور یہ کسی بھی شے کو 2000 گنا بڑھا کرکے دکھاسکتے ہیں۔

پرکاش کے مطابق اس سادی اور ہلکی پھلکی خردبین کی تیاری پر صرف پچاس امریکی سینٹ ( پچاس روپے پاکستانی) خرچ ہوتے ہیں اور اسے بڑے پیمانے پر تیار کرنا بہت آسان ہے۔

پرکاش چاہتے ہیں کہ ایسی مائیکروسکوپس بڑی تعداد میں انتہائی کم خرچ میں تیار کی جاسکیں، اس کا ڈیزائن سادہ ہو، انہیں فیلڈ میں ہر جگہ ہر شخص استعمال کرسکے۔

فولڈ سکوپ ٹیکنالوجی کو اس وقت انڈیا اور یوگینڈا میں استعمال کیا جارہا ہے تاکہ ملیریا، سلیپنگ سکنیس اور دیگر امراض کی شناخت کیلئے ان کی افادیت معلوم کی جاسکے۔

دوسری جانب اسٹینفرڈ یونیورسٹی فولڈسکوپ کے 30 ورژنز پر کام کررہے ہیں تاکہ انہیں مخصوص چراثیم کو دیکھنے کیلئے آزمایا جاسکتے اور اس کیلئے ایل ای ڈی لائٹس اور چمکنے والے فلٹرز استعمال کئے جارہے ہیں۔

پرکاش کے مطابق اس ٹیکنالوجی کے استعمال لاتعداد ہے اور انہوں نے اسے پلیٹ فارم ٹیکنالوجی کا نام دیا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ ایجاد بہت سادہ ہے اور معاشرے پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس طرح روزمرہ کی اشیا میں ٹیکنالوجی کے ملاپ کو کامیابی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ “ پرکاش کے مطابق تیس ممالک سے سات ہزار افراد نے نئے فولڈسکوپ تجربات اور اس کی آزمائش کی حامی بھری ہے ان میں مکھیوں میں خردبینی جراثیم کی آزمائش سے لے کر منگولیا میں دودھ میں موجود جراثیم کا اندازہ شامل ہے۔

خبر بشکریہ سائنس اینڈ ڈویلپمنٹ نیٹ ورک

تبصرے (0) بند ہیں