'جنّت وہ جہاں صرف کتابیں ہوں'

اپ ڈیٹ 23 اپريل 2014
کتابوں کا عالمی دن۔- اے ایف پی فوٹو
کتابوں کا عالمی دن۔- اے ایف پی فوٹو
کتابوں کا عالمی دن۔- اے ایف پی فوٹو
کتابوں کا عالمی دن۔- اے ایف پی فوٹو

اس بات کو رہنے دیجیے کہ آج کتابوں کا عالمی دن ہے کیوں کہ ہمارے ہاں اب کتاب پڑھنے کا رجحان اتنا کم ہو چکا ہے کہ یہ بات کرنا کچھ ایسا لگتا ہے جیسا کہ آپ کسی سماعت سے محروم بھینس کے آگے بین پر راگ ہمیر الاپ رہے ہوں-- ہمارے ہاں اس بات سے کوئی انکار نہیں کرتا کہ کتاب کا پڑھنا اور پڑھانا کسی بھی معاشرے کے لیے ضروری ہے مگر ایسا ہوتا ہوا کم دکھائی دیتا ہے۔

ارجنٹائن کے ادیب ہورہے لوی بورہے جسے کچھ لوگ بورخیز بھی کہتے ہیں نے اپنے ایک مضمون میں کمال کی بات لکھی، کہتے ہیں کہ میرے نزدیک جنّت ایک ایسی جگہ ہوگی جہاں صرف کتابیں ہی کتابیں ہوں گی-- کیا کہنے! یعنی اس کے نزدیک علم اور دانش سے بڑھ کر کوئی اجر نہیں، علم اور دانش ہی ہمیں زندگی کے ان پہلوؤں سے روشناس کراتے ہیں جو ہمیں زندگی کی ماہیت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

افسوس پاکستان میں کتاب سے رشتہ کچھ ایسا ٹوٹا ہے کہ جڑنے کا نام ہی نہیں لیتا- آج کراچی جیسے شہر میں کتابوں کی دکانیں انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں، جبکہ ایک وقت تھا کہ کراچی میں تقریباً ہر بڑے محلّے میں کم از کم ایک کتابوں کی دکان تو ضرور ہوتی تھی۔

یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں، ابھی 80 کی دہائی کا قصّہ ہے جن دنوں میں فیڈرل بی ایریا میں رہا کرتا تھا اور اسکول کا طالب علم تھا، ہمارے محلّے میں ایک چھوٹی سی لائبریری ہوا کرتی تھی جہاں سے ہم چار آنے میں ایک کتاب ایک دن کے لیے کرائے پر لے لیا کرتے تھے، اگر کتاب ذرا سی ضخیم موٹی ہے تو اس کا کرایا بڑھ جاتا تھا، یعنی اگر ہم انسپکٹر جمشید کی کہانی کرائے پر لیں تو کرایا چار آنے اور اگر عمران سیریز پڑھنا چاہیں تو آٹھ آنے۔

کمال کی بات یہ ہے کا منٹو کے افسانے بھی اپنی ضخامت کے اعتبار سے سستے مل جایا کرتے تھے، ہماری کہانی پڑھنے کا سفر انسپکٹر جمشید سے ہوتا ہوا عمران سیریز تک پنہچا جس کے بعد، گویا کالج کے دنوں میں، ہم نے منٹو کے جتنے بھی افسانے اس دکان میں موجود تھے پڑھ ڈالے، یہی حال ہمارے چند دوستوں کا بھی تھا، اس سے اور کچھ نہ ہوا ہو مگر ہمارا لفظ سے رشتہ جڑ گیا جو آج تک قائم ہے اور جس نے قدم قدم پر ہمارا ساتھ دیا ہے، رشتوں کو سمجھنے میں، نوکری کے نبھانے میں، زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل سے جوجھنے میں اور محبّت کے راستوں پر- کتاب سے رشتہ آپ کے اندر گداز پیدا کرتا ہے، آپ کو دکھ اور غم اور خوشی کے مفاہیم سمجھنے میں معاون ہوتا ہے'آپ کو تحقیق اور تسخیر کے راہ پر لے چلتا ہے۔

آج کراچی میں کتابوں کی دکانیں شہر کے کچھ متمول علاقوں میں ہیں یا لے دے کے صدر میں ایک پرانی دکان تھامس اینڈ تھامس رہ گئی ہے- متمول علاقوں میں جو اسٹورز ہیں وہاں زیادہ ترانگریزی زبان میں کتابیں دستیاب ہیں اور ایسی قیمتوں پر کہ آپ کے ہوش اڑ جائیں- تھامس اینڈ تھامس ایک زمانے میں کراچی کے دانشوروں کی پسندیدہ جگہ ہوا کرتی تھی، جہاں ہر قسم کی معیاری کتاب مناسب دام پر میسر تھی، آج بھی وہاں اچھی چیزیں پڑھنے کو مل جاتی ہے لیکن اب خریدار اتنے کم رہ گئے ہیں اور قیمتیں اتنی زیادہ ہوگئی ہیں کہ تھامس اینڈ تھامس کا خزانہ بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔

رہا اردو بازار، تو آپ وہاں جائیں تو معلوم ہوگا کہ اب زیادہ تر لوگ کمپیوٹر یا مارکیٹنگ سے متعلق کتابوں کی تلاش میں وہاں کا رخ کرتے ہیں- ایک زمانے میں اردو بازار میں ایک اولڈ پرائس بک شاپ ہوا کرتی تھی جہاں کا سیلزمین جسے سب کاکا کے نام سے جانتے تھے واجبی سی تعلیم ہونے کے باوجود ولیم شیکسپیئر، کارل مارکس، آدم اسمتھ اور سبطِ حسن جیسے ناموں سے بخوبی واقف تھا- آج اردو بازار میں نہ کوئی کاکا ہے اور نہ ہی کوئی ولیم شیکسپیئر کا نام لیوا۔

یہ ایک طویل بحث ہے کہ ہماری کتابوں سے دوستی کیوں اور کیسے کم ہوئی، اس کے لیے ایک الگ مضمون کی ضرورت ہوگی، لیکن اتنا ضرور کہہ دینا چاہیے کہ جب آپ ایک کتاب پڑھتے ہیں تو دنیا میں کہیں ایک دروازہ کھلتا ہے اور آپ کی طرف روشنی آنے لگتی ہے اور آج ہمارے معاشرے کو روشنی کی جتنی ضرورت ہے، شاید پہلے کبھی نہ تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں