ابرار تنولی، ایوب خٹک، شان ڈہر، بختاج علی، رازق بلوچ۔ یہ ان پیشہ ورانہ صحافیوں کے نام ہیں جن کے بارے میں 18 ہزار افراد پر مشتمل صحافی برادری میں سے بیشتر ناواقف ہیں اور جن کو گزشتہ 12 ماہ کے دوران حملوں میں ہلاک کر دیا گیا۔ تین میڈیا ورکرز وقاص عزیز، خالد خان اور اشرف آرائیں جو صحافی نہ صحیح لیکن میڈیا سے بحیثیت معاون منسلک تھے، انہیں بھی اسی عرصے کے دوران ہلاک کیا گیا۔ یہ میڈیا کے مختلف اداروں سے منسلک تھے اور اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ہلاک ہوئے۔

اسی دوران میڈیا کے دفاتر جیسے ایکسپریس، نوائے وقت اور آج ٹی وی پر بھی حملے ہوئے۔ صحافیوں اور میڈیا کے اداروں پر حملوں کے خلاف ہر جگہ مظاہرے کیے گئے اور اس میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں اور اداروں نے متحد ہو کر ان واقعات کی سختی سے مذمت کی۔

لیکن جب گزشتہ ہفتے ملک کے نامور ترین صحافیوں میں سے ایک حامد میر پر حملہ ہوا اور وہ 2000 کے بعد سے اب تک ہلاک، زخمی، ہراساں، اغوا اور حملے کا شکار ہونے والے صحافیوں کی صف شامل ہوئے تو کچھ عجیب و غریب واقعات دیکھنے کو ملے۔ مختلف میڈیا گروپس کے درمیان الفاظ کی ایک سرد جنگ چھڑ گئی کہ ان حملوں کا کس انداز میں تدارک کیا جائے اور حتیٰ کہ پیشہ ورانہ صحافی بھی اس حوالے سے منقسم رائے کا شکار تھے کہ میر کی حمایت پر کس انداز میں ردعمل ظاہر کیا جائے۔

معاملہ یہاں تک کیسے پہنچا؟، میں بات میر صاحب کے بھائی عامر سے شروع کرتا ہوں جو خود بھی اسی جنگ میڈیا گروپ میں صحافی ہیں اور انہیں جیو نیوز کی جانب سے اس حملے پر اظہار خیال کے لیے دعوت دی گئی تھی کیونکہ وہ ہسپتال میں موت سے لڑتے اپنے بھائی کی کیفیت سے زیادہ بہتر واقف تھے۔

اس حوالے سے براہ راست نشر کیے گئے پروگرام میں انہوں نے اس حملے کا تمام تر الزام آئی ایس آئی کے سربراہ اور ان کے ساتھیوں عائد کیا اور سول ملٹری تعلقات کے تناظر میں سخت گیر نہ سہی لیکن بے باک تبصرہ کیا۔ پھر اسی کے بعد نشریات کی تمام تر توجہ واقعے کے بجائے ملزمان کی جانب منتقل ہو گئی۔ اس پر آئی ایس پی آر کی جانب سے آئی ایس آئی کے دفاع میں ایک تردیدی بیان جاری کیا گیا جس کے بعد دیگر تمام تر چینل بھی اس بحث میں کود پڑے۔

اس کے بعد جنگ گروپ نے ایک واضح موقف اختیار کیا جبکہ دیگر چینل نے بھی کچھ ایسا ہی کرتے ہوئے جیو ٹی وی کو ہدف بنا لیا۔ اے آر وائے اور ایکسپریس گروپ نے جیو پر مسلح افواج اور خفیہ اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے الزامات عائد کیے۔ اس دوران ٹی وی چینلز پر ہونے والی دھواں دھار گفتگو میں اصل مدعہ کو نجانے کا کہاں وہ گیا اور تمام تر گفتگو جذبہ حب الوطنی اور قومیت کی جانب منتقل ہو گئی۔

حتیٰ کہ پہلے سے تین حصوں میں بٹی ہوئی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) نے بھی اس معاملے پر حیران کن اقدام اٹھایا۔ پی ایف یو جے میں اپنے گروہ کے سربراہ افضل بٹ نے پیر کو مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم خود کو آئی ایس آئی یا فوج کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال نہیں ہونے دینگے۔ 'ہم حامد میر کے ساتھ ہیں اور ان کو جن لوگوں پر شک ہے اس میں تحقیقات کے آئینی حق کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہم کسی سے ذاتی دشمنی نکالنے کے لیے معاملے میں فریق نہیں بنیں گے۔

انہوں نے کہا کہ حامد میر کی حمایت کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ فوج کے مخالف ہو جائیں۔

تاہم اس حوالے سے دیگر لوگوں کے خیالات کافی مختلف ہیں جہاں پی ایف یو جے میں اپنے دھڑے کے سربراہ رانا عظیم نے کہا کہ حملہ آور اور اس کے مقاصد سے قطع نظر ہم میڈیا پر ہونے والے تمام تر حملوں کی مخالفت کرتے ہیں۔حامد میر پر دن دھاڑے حملہ کیا گیا، جو کوئی بھی ان پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث ہے، اس کے عہدے اور حیثیت کو بالائے طق رکھتے ہوئے تحقیقات کی جائے۔ ہم اس عمل میں سسٹم پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہیں اور صحافیوں کو انصاف دلانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔

'جب ملزمان کو ڈھونڈ لیا جائے تو چاہے وہ جو بھی ہوں ان سے سختی سے نمٹا جائے'۔

اپنی تمام تر اچھی ساکھ کے باوجود بدقسمتی سے اس حادثے کے بعد میر میڈیا سے موجود گہری خلیج میں مزید اضافے کا سبب بنیں گے۔ میڈیا کی حفاظت کے حوالے سے آزاد ادارے فریڈم نیٹ ورک کے پشاور میں مقیم ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے کہا کہ جب ایکسپریس میڈیا گروپ پر حملہ کیا گیا اور ان کے ملازمین کو قتل کردیا گیا اور اسی طرح رضا رومی اور امتیاز عالم پر حملہ ہوا، تو یہ حامد میر ہی تھے جنہوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور انصاف کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں سے حمایت کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے سوال کیا کہ لیکن آج جب جنگ گروپ کے صحافی پر حملہ ہوا تو ایکسپریس کی جانب سے جنگ کے لیے اس طرح کی حمایت کہاں رہ گئی؟۔

'ایک وقت تھا کہ جب اخبارات میں اخلاقی اصول وضع کیے تھے کہ وہ اپنی اپنی اشاعتوں میں ایک دوسرے پر تنقید نہیں کریں گے لیکن ٹی وی میڈیا کی آمد کے ساتھ ہی سب کچھ بدل گیا اور آج دراصل جنگ گروپ، ایکسپریس گروپ اور اے آر وائی ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے ہیں۔

تاہم اسلام آباد سے جیو ٹی وی کے معاملات چلانے والے رانا جاوید اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کسی خلاف مہم شروع نہیں کی۔ ہم نے حامد میر کے اہل خانہ، فوج اور آئی ایس آئی سمیت تمام فریقین کی آراء کو جگہ دی۔ تو پھر جانبداری کہاں ہے؟ ہم کسی کے خلاف مہم نہیں چلا رہے لیکن کچھ ذرائع ابلاغ کے ادارے واضح طور پر ہمارے خلاف محاذ کھولے بیٹھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں اس بات کی شفافیت کی کمی ہے کہ مختلف حلقوں سے پڑنے والے دباؤ کو کیسے جھیلا جاتا ہے اور ہم وہ ادارے جن کا میڈیا سے کوئی تعلق نہیں، ان کے ایجنڈا پر عمل درآمد سے کیسے بچ سکتے ہیں۔

میڈیا کے نمائندے اور سینئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ میڈیا کے سیکٹر کو ایک دوسرے ہر تنقید ختم کرتے ہوئے اس بحران کی جڑ تک پہنچنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے میڈیا ہاؤسز میں صحافیوں پر حملوں کے حوالے سے جاری چپقلش سے کس کو فائدہ پہنچتا ہے، حکومت اداروں یا میڈیا کے نمائندوں کو؟ اور ان سے کس طریقے سے نمٹنا چاہیے؟ یقینی طور پر ہمارے دشمنوں کو ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ اس سے قبل ان حملوں سے نمٹنے کی مثالیں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ء1980 میں تین صحافیوں کو یکے بعد دیگرے قتل کردیا گیا تھا کونسل آف نیوزپیپر ایڈیٹر اور آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی(اے پی این ایس) نے ہڑتال کر دی تھی، ملک میں کوئی اخبار شائع نہیں ہو رہا تھا اور حکومت کو تفتیش اور مقدمے کو تیزی سے چلانا پڑا تھا۔

'ء1990 میں جب چھ اخباروں پر پابندی عائد کردی گئی تھی تو اس وقت بھی ہم نے ہڑتال کی تھی اور حکومت کو ان اخبارات کو بحال کرنا پڑا تھا۔ ہمیں آج بھی یہی کرنے کی ضرورت ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ اے پی این ایس، پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن اور پی ایف یو جے کو آپسی لڑائی بند کرنی چاہئیں اور ایک مشترکہ ایکشن کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے صحافیوں کے ایجنڈے پر متحد ہونا چاہیے ورنہ ہمارے دشمن جیت جائیں گے۔ اس سے غیر سنجیدہ مسائل پر مباحثوں میں الجھنے والے موجودہ غیر ضروری میڈیا کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔

میڈیا کے دشمن تو بن ہی رہے ہیں۔ 2000 سے اب تک صحافیوں کی بڑی تعداد کو قتل کیا جا چکا ہے۔ اگر ایسے ہی میڈٰیا کے لوگ آپس میں لڑتے رہے تو دوسرے لوگ ایک ایک کر کے میڈیا کو نشانہ بناتے رہیں گے، متعدد لوگ بہت کچھ جانتے ہیں لیکن وہ میر صاحب یا ان کے اہلخانہ کی طرح کھل کر نہیں بولتے تاہم ادارے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈر نے ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی سب سے زیادہ طالبان اور خفیہ ایجنسیوں کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔ سلیم شہزاد کمیشن نے بھی اس بات سے اتفاق کیا تھا۔ اور اب وزیر اعظم کی جانب سے اعلان کردہ حامد میر کمیشن کے پاس بھی کچھ جوابات حاصل کرنے کا موقع ہے لیکن اسے سے کوئی آس لگا کر مت بیٹھیے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Tariq Apr 23, 2014 01:51pm
Pakistan need urgently Army intervention to save the pakistan and should come up as Kamal Pasha Ataturk done. We need leader as like Sir Zafrullah Khan or MM Ahmad or Musharaf, who can work for the sack of pakistan in next 20 years. After 20 year if the education level come up atleast 50 % then we should accept this kind of Democratik
Muhammad Bilal Apr 24, 2014 09:11am
I want #BanGeo #ShutDownGeo #ShutUpGeo | I Support - I Love #PAKArmy #ISI - Zindabad