دھرتی کا بیٹا ننانوے برس بعد لوٹ آیا

اپ ڈیٹ 23 اپريل 2014
سنگ مرمر کی تختی سکول کی دیوار میں اس جگہ نصب ہے، جہاں خوشونت سنگھ کی باقیات رکھی گئی ہیں۔ —. فوٹو ڈان
سنگ مرمر کی تختی سکول کی دیوار میں اس جگہ نصب ہے، جہاں خوشونت سنگھ کی باقیات رکھی گئی ہیں۔ —. فوٹو ڈان

ہڈالی (خوشاب): دھرتی ماں کا ایک بیٹا ننانوے برس کے بعد اسی دھرتی پر لوٹ آیا۔

معروف مصنف خوشونت سنگھ کی مٹھی بھر راکھ خوشاب سے بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہڈالی میں اس سکول کی دیوار میں رکھ دی گئی، جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔

پاکستان کے معروف مصنف فقیر سید اعجاز الدین اس عظیم انسان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ان کی راکھ ہندوستان سے لے کر آئے تھے۔ جن کی خواہش تھی کہ ’انہیں ان کی جڑوں سے دوبارہ جوڑ دیا جائے۔‘

انہوں نے یہ راکھ ہڈالی کے گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کی ایک دیوار کے طاق میں رکھ دی۔ اس سکول میں خوشونت سنگھ کا بچپن میں داخلہ ہوا تھا۔ اس طاق کو سنگ مرمر کی ایک تختی سے بند کردیا گیا ، جس پر تحریرہے:

’’یہ وہ جگہ ہے، جہاں میری جڑیں ہیں۔ میں پرانی یادوں کے آنسوؤں سے جنہیں پروان چڑھایا۔‘‘

اس تقریب کے لیے جمع ہونے والے پُرجوش ہجوم میں سکول کے وہ ہیڈماسٹر اور اساتذہ بھی موجود تھے، جنہوں نے خوشونت سنگھ سے ان کی ہڈالی آمد کے موقع پر ملاقات کی تھی۔

اس سکول کے ہیڈماسٹر محمد فاروق رانا نے اس وقت کی یادیں ڈان کے سامنے بیان کرتے ہوئے کہا ’’1987ء میں خوشونت سنگھ کی اپنے آبائی قصبے میں آمد کے موقع پر ہڈالی کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا تھا۔ انہوں نے اس وقت ہم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جیسے آپ لوگ مکہ اور مدینہ کی زیارت کو جاتے ہیں، اسی طرح مغرب کے وقت ہڈالی میں میری واپسی میرے لیے حج اور عمرے کے برابر ہے۔‘‘

ہیڈ ماسٹر محمد فاروق نے تختی کو جستجو کے ساتھ دیکھتے ہوئے طلباء کے ایک گروپ کو بتایا کہ ’’خوشونت سنگھ اسی سکول کے ایک سابق طالبعلم تھے، جنہوں نے اپنی تحریروں کی بدولت شہرت حاصل کی۔ وہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان امن کو فروغ دینے والے بھی تھے۔‘‘

خوشونت سنگھ 1915ء میں ہڈالی میں پیدا ہوئے، وہ شاید ہندوستان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اور متنازعہ مصنف تھے۔ ان کا انتقال بیس مارچ کو ہوا تھا۔

آزادی اور تقسیم سے لے کر ایمرجنسی اور آپریشن بلو اسٹار تک جدید ہندوستانی تاریخ کے تمام اہم واقعات کا مشاہدہ خوشونت سنگھ نے کیا تھا۔وہ بہت سے تصورات کے حوالے سے بھی جانے جاتے تھے، جن کی انہوں نے تشکیل کی تھی۔

بتایا جاتا ہے کہ ان کے انتقال کے بعد ان کی مٹھی بھر راکھ ان کے خاندان نے پاکستان لے جانے کے لیے محفوظ کرلی تھی، جہاں ایک نامعلوم دوست کی خواہش تھی کہ یہ راکھ اس میدان میں رکھی جائے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔

خوشونت سنگھ کے انتقال کے بعد پاکستان سے موصول ہونے والے تعزیتی پیغامات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا ’’مجھے پاکستان سے بڑی تعداد میں لوگوں کی فون کالز موصول ہوئی ہیں، ان میں سے زیادہ تر سے تو میں بالکل ناواقف تھا، جو یہاں آئے تھے اور انہوں نے میرے والد سے ملاقات کی تھی۔‘‘

انہوں نے خوشونت سنگھ کے پاکستانی دوست کی شناخت کو ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا ’’ہم نے کچھ راکھ رکھ چھوڑی ہے۔ وہ ہندوستان آئیں گے اور ان کی راکھ کو واپس لے جائیں گے۔‘‘

بعد میں معلوم ہوا کہ خوشونت سنگھ کے وہ دوست فقیر اعجاز الدین تھے، جو خصوصاً تاریخ اور ثقافت پر اپنی تحریروں کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے ہیں۔

اس تقریب کے بعد فقیر اعجاز الدین نے ڈان کو بتایا ’’خوشونت سنگھ کے پاکستان میں بہت سے پرستار ہیں، جیسا کہ ہندوستان میں ہیں۔ پاکستان سے ان کی گہری وابستگی کی شاید ایک اور وجہ بھی تھی کہ وہ اسی مٹی کا حصہ تھے۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ ’’جب اس سال چار مارچ کو میری دہلی میں خوشونت سنگھ سے ملاقات ہوئی تھی تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ انہیں ہڈالی میں دفن کیا جائے۔ ‘‘

فقیر اعجاز الدین نے کہا ’’ماربل کی تختی نصب کرتے ہوئے میں خوشونت سنگھ کی نظر نہ آنے والی موجودگی کو محسوس کررہا تھا۔ ایسا فی الواقع تھا، جیسا کہ انہوں نے میرے ساتھ سرحد پار کی تھی اور میرے ساتھ ہڈالی میں موجود تھے۔‘‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں