پی سی بی میں ذاتی مفادات کا غلبہ

23 اپريل 2014
پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی۔— فائل فوٹو
پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی۔— فائل فوٹو

پاکستان کرکٹ بورڈ نے پیر کو بیک وقت دو اہم عہدوں کے لیے معین خان کو منتخب کر کے اپنی گربساہٹ ظاہر کی ہے۔

گزشتہ جولائی سے پاکستان ٹیم کے ساتھ مختلف عہدوں پر کام کرنے والے سابق کپتان اب ناصرف چیف سلیکٹر ہوں گے بلکہ وہ قومی ٹیم کے مینیجر کا کردار بھی نبھائیں گے۔

نجم سیٹھی کے پہلے دور میں قومی سلیکشن کمیٹی کی سربراہی کے لیے معین کو اقبال قاسم کا جانشیں نامزد کیا گیا تھا۔ تاہم، پی سی بی کو ایک عدالتی حکم نامے کے بعد معین کو ٹیم مینیجر بنانے پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔

معین نے دورہ زمبابوے اور متحدہ عرب امارات میں جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز میں یہ ذمہ داری بخوبی نبھائی ۔

اور پھر جب فروری میں دو سال تک پاکستان کے کوچ رہنے والے ڈیو واٹمور رخصت ہوئے تو بنگلہ دیش میں کھیلے گئے ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے معین بطور ہیڈ کوچ سامنے آئے۔

اس مرتبہ معین کودو یکسر مختلف نوعیت کی ذمہ داریاں ملنا اس بات کا عندیہ ہے کہ سیٹھی ان دو انتہائی اہم عہدوں کے لیے کسی دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔

دو لوگوں کی ذمہ داریوں کے لیے ایک فرد کے چناؤ کا تجربہ دور رس نتائج کا سبب بن سکتا ہے اور کرکٹ کی باریکیوں سے نا آشنا سیٹھی ان نتائج سے نمنٹے میں ناکام رہیں گے۔

سیٹھی ایک معروف صحافی تو ہو سکتے ہیں لیکن وہ کرکٹ کے ماہر نہیں۔ وہ پی سی بی کے ایک اچھے منتظم ہوں گے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کرکٹ کی پیچیدگیاں بھی جانتے ہوں۔

معین کے معاملے میں ان کے فیصلے کی پاکستان کرکٹ میں تو کیا کسی دوسرے ملک میں بھی مثال نہیں ملتی۔

کیا کبھی کسی نے سنا کہ دوروں پر ایک ہی شخص کی من مانی چل رہی ہو ؟

مثلاً، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک چیف سلیکٹر خود ہی قومی ٹیم کے ساتھ بطور مینیجر دورے پر جائے گا تو پیچھے نئے ٹیلنٹ یا بیک اپ کھلاڑیوں کی دریافت کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ پر کون نظر رکھے گا؟

انڈر-17، انڈر-19اور اے ٹیم وغیرہ کا چناؤ بھی چیف سلیکٹر کی ہی ذمہ داریوں میں شامل ہے، لیکن اگر وہ قومی ٹیم کے ساتھ غیر ملکی دوروں پر ہوں گے تویہ اہم ذمہ داری نظر انداز ہو گی۔

اس کے علاوہ، بے باک گفتگو کے حوالے سے مشہور سابق تیز باؤلرسرفرازنواز نےکہا ہے کہ سیٹھی خود ہی کوچز کی مختلف ملازمتوں کے لیے امیدواروں کے انٹرویوزکریں گے۔

پیر کو ڈان اخبار میں شائع ہونے والے انٹرویو میں سرفراز نے کہا کہ پی سی بی سربراہ کوچنگ کے مختلف عہدوں کے لیے ہونے والے انٹرویوزکی نگرانی کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ان ملازمتوں کے لیے گزشتہ ہفتے قومی میڈیا اوربورڈ کی ویب سائٹ پرباقاعدہ اشتہار جاری ہوئے تھے۔

'ماضی کے برعکس اس مرتبہ کوچوں کے تلاش کے لیے کمیٹی کا سہارا نہیں لیا جائے گا کیونکہ سیٹھی کے خیال میں بہترین انتخاب کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود امیدواروں کا انٹرویو کریں'۔

سرفراز نواز پی سی بی چیئرمین کے اس فیصلےکا خیر مقدم کرتے ہیں۔'میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ یہ ایک درست فیصلہ ہےکیونکہ ماضی میں کوچوں کو تلاش کرنے والی کمیٹیاں مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہیں اور ان کے تمام فیصلے بلاآخر متنازعہ ثابت ہوئے'۔

تاہم، حیران کن طور پر اس انٹرویو کے اگلے ہی دن، پی سی بی نے ایک جاری بیان میں ان ملازمتوں کے لیے امیدواروں کی درخواستوں کی جانچ اور جائزے کےلیے تین رکنی کمیٹی کا اعلان کر دیا۔

اس کمیٹی میں انتخاب عالم، ہارون رشید اور معین خان شامل ہیں ۔ یہ کمیٹی پانچ مئی کودرخواستیں جمع کرانے کی ڈیڈ لائن کے بعد سیٹھی کو اپنی تجاویز بھیج دے گی۔

اب تک کسی بھی بورڈ نےخواہ برطانیہ ہو، آسٹریلیا، انڈیا، جنوبی افریقہ حتی کہ زمبابوےنے بھی اس قسم کے کام نہیں کیے جو موجودہ پی سی بی چیئر مین کر رہے ہیں۔

یقیناً، سیٹھی کو نجانے کتنے سالوں سے بورڈ میں اپنی ملازمتوں سے چپکے لوگوں کا ایک ٹولہ گمراہ کر رہا ہے، جب کہ اس تمام عرصے میں کئی چیرمین آئے اور چلے گئے۔

چاہے لیفٹیننٹ جنرل توقیر ضیا ہوں، شہریار ایم خان، ڈاکٹر نسیم اشرف، اعجاز بٹ یا ذکا اشرف، یہ سب کسی نہ کسی طرح اپنی معیاد ملازمت پوری کرنے میں کامیاب رہے، حالانکہ سچی بات تویہ ہے کہ انہیں بہت پہلے ہی پی سی بی سے نکال دینا چاہیے تھا۔

چاہے صحیح ہو یا غلط، پاکستان کرکٹ کا مذاق بنانے میں ان سب کا ہاتھ ہے کیونکہ ان سب کے پاس وہ 'ذہین لوگ' تھے جنہوں نے بہت سے پی سی بی سربراہان کو ماضی میں گمراہ کیا اور آج بھی یہی کام جاری ہے۔

کھلاڑیوں کا وقتاً فوقتاًخراب پرفارمنس پر احتساب کیا جاتا ہے، لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ پی سی بی کےطاقتور ایوانوں میں رہنے والے ان لوگوں سے سوال بھی کر سکے۔

ڈومیسٹک کرکٹ میں بہتری کی باتیں کوئی نئی نہیں۔یہ باتیں سیزن در سیزن جاری ہیں لیکن اگرڈیپارٹمنٹ کرکٹ ٹیموں کو ختم کرنے کی افواہوں میں صداقت ہے تویہ اقدام سالوں سے اس کھیل سے منسلک اور پاکستان کرکٹ کی خدمت کرنے والوں کے لیے نہایت تباہ کن ثابت ہو گا۔

ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کی خامیاں بھی ہوں گی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے نا صرف مقابلے کے فضا بلند ہوئی بلکہ اس کے ذریعے بہت سا ٹیلنٹ بھی سامنے آیا۔

ملک کی بدنامی کا سبب بننے والے خود ساختہ تنازعات سے باہر نکلنے کے لیے پاکستان کرکٹ کو تازہ ہوا کے جھونکے کی ضرورت ہے۔

فروری میں پی سی بی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد سے سیٹھی کئی غلط اقدامات کر چکے ہیں اور وہ خود کو ان سے بری الزمہ قرار نہیں دے سکتے۔

وقت آیا گیا ہے کہ نجم سیٹھی ان لوگوں پر تھوڑی سی تحقیق کر لیں جو ایک اور چیئر مین کو اندھیرے کنویں کی جانب دھکیل رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں