'مولانا عزیز کا نام مشتبہ دہشت گردوں میں شامل رکھا جائے'

اپ ڈیٹ 24 اپريل 2014
اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ مولانا عزیز کالعدم تنظیم سے وابستہ ہیں اور فوج کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش کرچکے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ مولانا عزیز کالعدم تنظیم سے وابستہ ہیں اور فوج کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش کرچکے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: چیف کمشنر اور اسلام آباد پولیس کے سینئر سپریٹنڈنٹ نے لال مسجد کے سابقہ خطیب عبدالعزیز کا نام انسدادِ دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کے فورتھ شیڈیول سے خارج کرنے سے انکار کردیا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ ان مذہبی پیشوا نے ناصرف سکیورٹی کے مسائل پیدا کیے بلکہ فوج کا مورال گھٹانے کی بھی کوشش کی۔

اپنے جواب میں انہوں نے یہ دلیل اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش کی تھی، جو مذکورہ مذہبی پیشوا کی ایک درخواست کی سماعت کررہی ہے، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ان کا نام فورتھ شیڈیول سے خارج کیا جائے۔

انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں فورتھ شیڈیول کی شق کے تحت ایسے لوگ آتے ہیں، جنہیں دہشت گردی کے شبہ میں زیرِنگرانی رکھا جاتا ہے۔ اس کے تحت ان پر لازمی ہوتا ہے کہ وہ مقامی پولیس اسٹیشن پر باقاعدہ اپنی حاضری درج کرائیں۔

تین اگست 2005ء کو وفاقی حکومت نے مولانا عبدالعزیز کا نام ان کی مبینہ ریاست مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے فورتھ شیڈیول میں درج کردیا تھا۔

سرکاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ ’’چیف کمشنر اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹیری کو یہ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ لال مسجد کے رہائشی مولانا عبدالعزیز سپاہ صحابہ کے ساتھ منسلک ہیں اور ان کی سرگرمیوں میں ملؤث ہیں، جس پر وفاقی حکومت نے 2002ء میں پابندی عائد کردی تھی۔‘‘

تاہم اب یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے، جس کے دوران چیف کمشنر اور ایس ایس پی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار مولانا عزیز اسلام آباد میں ریاست مخالف سرگرمیوں کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’’درخواست گزار فورتھ شیڈیول میں نام شامل کیے جانے کے بعد بھی اپنی ریاست مخالف سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، اور انہوں نے 2007ء کے دوران دارالحکومت میں امن و امان کی کچھ ایسی صورتحال پیدا کردی تھی کہ آئین کی متعلقہ شقوں کے تحت فوج کو طلب کرنا پڑ گیا تھا۔‘‘

دیگر الزامات کے ساتھ جوابی بیان میں کہا گیا تھا کہ ’’بائیس فروری 2004ء کو درخواست گزار نے لال مسجد میں ممتاز مذہبی علماء کا ایک اجلاس طلب کیا تھا، جس میں دہشت گردوں کے خلاف وانا میں کارروائی کرنے پر پاکستانی فوج کے خلاف ایک ’فتویٰ‘ جاری کیا تھا۔‘‘

ان دونوں افسران نے واضح کیا کہ یہ فتویٰ اپنی فطرت میں باغیانہ تھا، جس کامقصد مسلح افواج کے حوصلے پست کرنا تھا۔

جوابی بیان میں کہا گیا ہے کہ اس فتوے پر دستخط کرنے کے اعتراف پر مولانا عبدالعزیز کو لال مسجد کے خطیب کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ مولانا عبدالعزیز نے ریاست کے اندر ریاست قائم کرکے حکومت کی عملداری کو چیلنج کردیا تھا۔ انہوں نے ایک شریعہ کورٹ قائم کی اور لوگوں کو اس سے رجوع کرنے کی دعوت دی۔ مقامی شہریوں اور غیرملکی افراد کو اغوا کرنے کے ساتھ ساتھ زبردستی مارکیٹوں کو بند کروایا۔

عدالت کو جمع کرائی جانے والی دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2000ء سے 2007ء کے دوران حکومت کے خلاف نفرت آمیز تقاریر کرنے پر مذکورہ مذہبی پیشوا کے خلاف مختلف تھانوں میں چالیس مقدمات درج کیے گئے تھے۔

جوابی بیان میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ مولانا عزیز کا نام فورتھ شیڈیول میں جب شامل کیا گیا تھا تو قانونی طور پر انہیں ایک سال کے اندر اندر اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا اختیار تھا، اور اب یہ وقت گزر چکا ہے۔

چیف کمشنر کے ساتھ ساتھ ایس ایس پی اسلام آباد نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ یہ رٹ پٹیشن باآسانی مسترد کی جاسکتی ہے۔

مولانا عبدالعزیز نے اپنے وکیل قاری وجاہت اللہ ایڈوکیٹ کے ذریعے جمع کرائی گئی درخواست میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کا کسی بھی کالعدم تنظیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔

انہوں نے اس میں مزید کہا ہے کہ کسی بھی شخص کا نام تین سال کے لیے اس شیڈیول میں شامل کیا جاسکتا ہے، جبکہ ان کے نام تقریباً آٹھ برس سے اس شیڈیول میں شامل ہے۔

اس پٹیشن میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ مولانا عزیز کو پچھلے سال تک مطلع نہیں کیا گیا تھا کہ ان کا نام فورتھ شیڈیول میں شامل ہے۔

مولانا عزیز کی پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بارہ اگست 2013ء کو پولیس افسران نے مولانا عزیز کی گرفتاری کے لیے جامعہ حفصہ پر چھاپا مارا تھا، لیکن وہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔ پولیس حکام نے جامعہ حفصہ کی انتظامیہ کو بتایا کہ مولانا عزیز کا نام فورتھ شیڈیول میں شامل کردیا گیا تھا، اور انہیں اپنی حاضری درج کروانے کے لیے پولیس اسٹیشن جانا ہوگا۔

پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس سے قبل مولانا عزیز کو کبھی نہیں بتایا گیا کہ ان کا نام فورتھ شیڈیول میں شامل ہے، اور ان سے کبھی نہیں کہا گیا کہ انہیں پولیس اسٹیشن جانا پڑے گا۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگرچہ مولانا عزیز کے خلاف 44 مقدمات درج تھے، لیکن پولیس نے ان میں سے 27 کی ہی پیروی کی تھی۔ استغاثہ کے ناقص دلائل کی وجہ سے عدالت نے گزشتہ سال انہیں تمام مقدمات سے بری کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں