پاکستانی بلوچ کے ساتھ کل کچھ بھی ہو سکتا ہے

25 اپريل 2014
تصویر، زری جلیل۔۔۔۔
تصویر، زری جلیل۔۔۔۔
تصویر زری جلیل۔۔۔
تصویر زری جلیل۔۔۔

کراچی: ہم طالب علم ہیں، ہمارا ہتھیار قلم اور کتابیں ہیں، یہ بات بلوچ رہنما زاہد بلوچ کی بازیابی کے لیئے تادم مرگ بھوک ہڑتال کرنے والے لطیف جوہر نے کراچی پریس کلب کے باہر ایک احتجاجی کیمپ پر بتائی۔

انہوں نے کہا کہ ہم تشدد پر یقین نہیں رکھتے ہم جمہوری سیاسی ذرائع سے اپنے حقوق کے لیئے لڑنے پر یقین رکھتے ہیں۔

بظاہر باہر سے پرسکون رہنے والا لطیف جوہر کو بی ایس او کی مرکزی کمیٹی کا ایک رکن ہے ، اس نے بتایا کہ ملک میں رہنے والے تمام بلوچ خصوصاً پاکستانی بلوچ شدید مسائل سے گزررہے ہیں۔

ان کے ساتھ نوجوان مرد اور خواتین اور بوڑھی عورتیں بھی ہیں ان میں سے کچھ اپنے خاندان کے ساتھ ہیں جب کہ کچھ اکیلے لیکن ان سب کا ایجنڈا ایک ہی ہے کہ لاپتہ زاہد بلوچ اور ذاکر مجید اور دوسرے رہنماؤں کی بازیابی کے لیئے حکومت اور انٹیلی جنس ادارے مدد کریں۔

لطیف نے کہا کہ ہم ایک رہنما کے بعد رہنما، اور ایک کارکن کے بعد دوسرا کارکن کھو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ذاکر مجید کو اٹھایا گیا ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں انہوں نے قمبر چاکر، کامریڈ خیام، شفیق بلوچ اور رضا جہانگیر کو اٹھایا جن میں سے زیادہ تر سنٹرل کمیٹی کے رکن تھے، ( مبینہ طور پر) ہمارے سینکڑوں کارکن مارے جا چکے ہیں۔

توتک ( خضدار) میں جب اجتماعی قبر دریافت ہوئی ہم نے پہلے دن کھدائی میں سو لاشیں برامد کیں اور دوسرے دن کم سے کم پچاس یا ساٹھ لاشیں نکالیں۔

ان لاشوں میں بہت سے نا قابل شناخت تھیں جن میں سے کئی ایک سے شناختی کارڈ برآمد ہوئے۔جس سے انہیں شناخت کیا گیا جبکہ کئی کے چہرے مسخ تھے جب کچھ کی صرف ہڈیاں تھیں۔

جوہر نے مبینہ طور پر بتایا کہ توتک کے علاقے میں جہاں لاشیں برآمد ہوئیں وہاں قلندرانی قبائل رہتے ہیں اور انہیں بندوق کے زور پر وہاں سےجانے کو کہا گیا۔

قلندرانی قبیلے کو مبینہ طور پر زبردستی بے دخل کرنے کے بعد ایک چرواہے نے توتک میں ٹارچر سیل دیکھا۔ اس کے علاوہ مبینہ طور پر مختلف علاقوں مختلف اوقات میں 400 لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

' ہم نے اپنے بچوں کو سکھایا ہے کہ وہ مضبوط رہیں۔ تاکہ اگر ان کے اہلِ خانہ کا کوئی فرد غائب ہوجائے تو وہ اس معاملے کو سمجھیں،' احتجاج کرنے والے ایک بلوچ طالبعلم نے بتایا۔

بلوچ مظاہرین نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان کی تمام جماعتوں میں سے جنہیں سب سے ذیادہ نشانہ بنایا جارہا ہے ان میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ( بی ایس او)، بی ایس او آزاد، بلوچستان نیشنل موومنٹ ( بی این ایم) اور بلوچ ریپبلیکن پارٹی ( بی آرپی) اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔

دوسری جانب بی ایس او آزاد اور دیگر جماعتوں سے وابستہ افراد کے اہلِ خانہ جب اپنے حقوق مانگنے آگے بڑھے تو انہیں بھی نشانہ بنایا گیا ۔ دعویٰ کیا کہ کبھی کسی کے والد کو اٹھالیا گیا اور کبھی پورا گھر ہی مسمار کردیا گیا۔

بی ایس او نے یہ بھی کہا کہ لاشوں پر سگریٹ سے داغے جانے کے نشانات ملے ہیں جبکہ بعض علاقوں میں لاشوں کو درختوں سے لٹکایا گیا ہے۔ غالباً اسی لئے لطیف جوہر سمجھتے ہیں کہ شاید تادمِ مرگ بھوک ہڑتال سے ریاست پر کچھ اثر ہوسکتا ہے کسی اور وجہ سے نہیں تو احساسِ ندامت سے ہی سہی۔

' لوگ پورے ملک میں بھوک ہڑتال پر ہیں ،' انہوں نے کہا۔

' اگر میں مر گیا تو کوئی ریکارڈ نہیں ہوگا کہ کیوں مرا ۔

ایک شخص ایک وقت میں ایک دفعہ تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کررہا ہے۔ اگر میں مرگیا تو کوئی اور اس کی جگہ لے لے گا۔

نقاب پہنے ہوئے برامش بلوچ نے کہا، ' وہ مبینہ طور پر ہماری لائبریریوں، کتابوں اور لٹریچر کو تباہ کررہے ہیں۔ یہ تو پوری دنیا میں پڑھا جاتا ہے۔ مارکس،لینن اور ٹراسکی وہ دانشور ہیں جو آزادی اور سیاست کی بات کرتے ہیں۔ '

' پولیٹکل سائنس اور سماجیات کے ہمارے استادوں کو بھی قتل کیا گیا جن میں صبا دشتیار اور علی جہان شامل ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ یہ ٹیچرز کوئی فکر انگیز باتیں کریں،' انہوں نے کہا ۔

' ہمارے ڈاکٹروں اور وکلا کو قتل کیا جارہا،' انہوں نے کہا۔ ' میں بھوک سے مرسکتی ہوں، یا مجھے اٹھالیں یا مجھے رکھیں ۔ ہم اپنی آزادی اور حقوق کی جدوجہد جاری رکھیں گے،' ' کل کچھ بھی ہوسکتا ہے!،' برامش بلوچ نے کہا ۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں