کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے یومِ سوگ کے بعد سندھ کے اہم شہری علاقوں میں کاروبارِ زندگی معمول پر آنا شروع ہوگیا ہے۔ بڑے شہروں میں ٹریفک سڑکوں پر رواں دواں ہے اور شہر میں کاروباری مراکز کھلنے لگے ہیں۔

دوسری جانب ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ ان کے کارکنوں کو بے رحمی سے قتل کیا جارہا ہے۔ کل ملنے والی لاشوں پر تشدد کے نشانات تھے۔

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے ہمیشہ ذمے دارانہ سیاست کی ہے اور بغیر ثبوت کے کسی پر بھی انگلی نہیں اٹھائی۔ انہوں نے کہا کہ کارکنوں کے قتل میں ملوث سادہ لباس پہنے افراد کو بے نقاب کیا جائے کیونکہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

گزشتہ روز جمعرات کوایم کیو ایم نے کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف بطور احتجاج آج یوم سوگ کا اعلان کیا تھا۔

اس سے قبل ٹرانسپورٹ اتحاد نے چار بچے سڑکوں پر گاڑیاں لانے کا اعلان کیا تھا لیکن ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ یومِ سوگ ابھی جاری ہے اور عوام ٹراسپورٹ اور کاروبار بند رکھیں، لیکن اس کے دو گھنٹے بعد یومِ سوگ ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔

سوگ کے موقع پر شہر بھر میں کاروباری مراکز، تعلمی ادارے اور پیٹرول پمپز بھی بند ہیں۔

خیال رہے کہ بدھ کو کراچی کے علاقے میمن گوٹھ میں سپر ہائی وے کے قریب ایک ویران مقام سے چار تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں جن کی جمعرات کو ایم کیو ایم کے کارکنان کی حیثیت سے شناخت ہوئی۔

پولیس کے مطابق مقتولین کو اغواء کے بعد فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا تھا۔

لاشوں کی شناخت کے بعد ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ارکان، پارٹی عہدیدار اور رشتہ داروں کی ایک بڑی تعداد سرد خانے پہنچ گئے جہاں لاشوں کو رکھا گیا ہے۔

مقتولین کے اہلخانہ نے ہلاکتوں کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

ادھر، ایم کیو ایم کے ترجمان واسع جلیل نے دعوٰی کیا ہے کہ تیرہ اپریل کو کراچی کے علاقے ابو الحسن اصفہانی روڈ سے متصل کنٹری گارڈن اسکیم 33 سے چھ کارکنان کو 'گرفتار' کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چار کارکنوں کی لاشیں مل گئی ہیں جبکہ دو تاحال لا پتہ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں سے ایک کا تعلق گلشن اقبال سیکٹر جبکہ تین گلشن معمارکے رہائشی تھے۔

ڈان نیوز کے مطابق پارٹی نے مبینہ طور پر کارکنان کے اغواء اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف جمعہ کو پرامن احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

اس بات کا اعلان رابطہ کمیٹی کے رکن خالد مقبول صدیقی نے جمعرات کو متحدہ کے مرکز نائن زیرو پر نیوز کانفرنس کے دوران کیا۔

خالد مقبول نے بتایا کہ مقتولین کو تیرہ اپریل کو رات ایک بجے گرفتار کیا گیا تھا اور اب بھی دو کارکنان کی گرفتاری ظاہر نہیں کی گئی اور ایم کیو ایم ان کے تحفظ کے بارے میں تشویش کا شکار ہے۔

انہوں نے وزیر اعظم، گورنر اور وزیر اعلٰی سے صورتحال کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا اور واضح کیا کہ کہ اگر حالات ایم کیو ایم کے ہاتھ سے نکل گئے تو ذمے دار نہیں ہوں گے۔

دوسری جانب آئی جی سندھ اقبال محمود کی ہدایت پر ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات نے ایم کیو ایم کے چار کارکنان کی ہلاکت پر ڈی آئی جی ایسٹ کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے جلد از جلد اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

سوگ کے اعلان کے ساتھ مختلف تاجر تنظیموں اور اسکول ایسوسی ایشنز نے جمعہ متعلقہ ادارے بند رکھنے کا اعلان کردیا۔

سندھ تاجر اتحاد نے یوم سوگ کی حمایت کی ہے جبکہ پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن نے بھی تعلیمی ادارے بند رکھنے کا اعلان کردیا۔

تعلیمی بورڈ نے بھی موجودہ صورتحال کے باعث جمعہ کو ہونے والے انٹر میڈیٹ کے پرچے ملتوی اور میٹرک کے پریکٹیکل امتحانات ملتوی کردیے ہیں۔

ناظم امتحانات انٹر میڈیٹ عمران چشتی نے کہا کہ شہر کی صورتحال اور یوم سوگ کے باعث طلبہ کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے کل ہونے والے انٹر میڈیٹ کے پرچے ملتوی کر دیے گئے ہیں جن کی نئی تاریخوں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔


حیدرآباد بھی مکمل بند


کراچی سے احتجاج اور یوم سوگ کی خبریں موصول ہونے کی ساتھ ہی حیدرآبد کے حالات بھی کشیدہ ہو گئے جہاں نامعلوم افراد نے سڑکوں پرٹائر جلا کر احتجاج کیا اور فوری طور پر تمام کاروباری مراکز بند ہو گئے۔

حیدرآباد میں تمام پیٹرول پمپ اور سی این جی اسٹیشن کے ساتھ ساتھ دکانیں بھی بند ہو گئیں۔ جیسے ہی ایم کیو ایم کے کارکنوں کی لاشوں کی شناخت ہونے کی خبر پہنچی، کنٹونمنٹ ایریا، صدر، گاڑی کھاتا، تلک انکلائن، ہیرا باد، مارکیٹ ٹاور، شاہی بازار، ریشم گلی، سرفراز کالونی، پھلیلی اور لطیف آباد کے تمام یونٹس سمیت کاروباری مراکز فوری طور پر بند ہو گئے۔

شہر کے مختلف علاقوں سے ہوئی فائرنگ کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں تاہم اس خبر کے شائع ہونے تک کسی کے بھی زخمی یا ہلاک ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔

حیدرآباد سے محمد حسین خان کی ضافی رپورٹنگ کے ساتھ

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں