شادی کے سائیڈ ایفیکٹس

12 جولائ 2014
کچھ سائیڈ ایفیکٹس ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس وقت لاحق ہوتے ہیں جب کسی کا لائف پارٹنر انتقال کرجائے یا علیحدگی اختیار کرلے۔
کچھ سائیڈ ایفیکٹس ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس وقت لاحق ہوتے ہیں جب کسی کا لائف پارٹنر انتقال کرجائے یا علیحدگی اختیار کرلے۔

شادی کے سائیڈ ایفیکٹس کے بارے میں تو سب نے ہی سنا ہوگا اور تقریباََ سب ہی متاثرہ شادی شدہ خواتین وحضرات اِن سائیڈ ایفیکٹس سے اتفاق بھی کرتے ہونگے۔ مگر شادی کے کچھ سائیڈ ایفیکٹس ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس وقت لاحق ہوتے ہیں جب کسی کا لائف پارٹنر انتقال کرجائے یا اُس سے علیحدگی اختیار کرلے۔ اس کے علاوہ کنوارے (مُجرد) مرد حضرات کو بھی شادی نا کرنے کے سائیڈ ایفیکٹس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو شادی کرکے ہمسفر کھو دینے والوں اور شادی نا ہونے کے سبب ہمسفر کے بغیر زندگی بسر کرنے والوں دونوں ہی اقسام کے مرد حضرات کم و بیش ایک ہی طرح کے سائیڈ ایفیکٹس کا شکار ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ شادی کے سائیڈ ایفیکٹس کا شکار تو صرف میاں یا بیوی بنتے ہیں۔ مگر رنڈووں، مُطلقوں اور اب تک کنواروں (مُجردوں) پر ہونے والے سائیڈ ایفیکٹس کا خمیازہ بعض اوقات پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔

آج کل ہمیں پاکستان میں رہتے ہوئے شاید کچھ رنڈووں، مُطلقوں اور ایک صاحب کے مُجرد ہونے کی سزا ہی مل رہی ہے۔ ایک طرف کینیڈین رنڈوا فوری انقلاب کا ٹوکرا اُٹھائے ایک شیخی باز مُجرد کے ساتھ مل کر انقلاب درآمد کر رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب دو مُطلق آئے روز تپتی گرمی میں سڑکوں پر جیالوں کو خوار کرواتے رہتے ہیں۔

ہم بات کر رہے تھے ایک ایسے وزیٹنگ انقلابی رنڈوے کی جو کے ڈیڈھ سال بعد دوبارہ کینیڈا سے انقلاب برپا کرنے پاکستان آیا ہے اور جس کے آنے سے پہلے ہی بارہ لوگ اس انقلاب کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اِن علامہ صاحب میں کمبخت انقلاب اس قدر سرائیت کرچکا ہے کہ انھیں کینیڈا جیسے سرد ملک میں بھی آرام سے بیٹھنے نہیں دیتا اور یہی وجہ ہے کہ علامہ صاحب تقریبا ڈیڈھ سال کا عرصہ کینیڈا میں گزارنے کے بعد مزہبی ٹوپی اوڑھے پھر سے پاکستان میں انقلاب برپا کرنے آن پہنچے ہیں۔

پہلے تو اِن رنڈوے علامہ صاحب کی جانب سے پچھلے ماہ یہ اعلانِ عام کیا گیا کے وہ عوام کے حالات، مشکلات اور حکمرانوں کی عادات کو دیکھتے ہوئے جلدی پاکستان تشریف لارہے ہیں۔ علامہ صاحب کی جانب سے پاکستان واپسی کے لئے ماہِ جون کے آخر کا انتخاب شاید یہ سوچ کر کیا گیا کہ پاکستانی موسمِ برسات انقلابیوں پر برستا رہیگا اور اسطرح سے انقلابی سرگرمیاں زیادہ متاثر نہیں ہوں پائیں گی۔

منہاج القرآن سیکریٹریٹ میں بیٹھ کر علامہ صاحب اپوزیشن جماعتوں کو بھی آنے والے انقلاب کا حصّہ بننے کے لئے مدعو کر رہے ہیں اور آئے روز ان سے کسی نا کسی جماعت کے رہنما ملاقات کا شرف حاصل کرنے تشریف لاتے ہیں۔

تاہم ان ملاقاتیوں میں سے سب سے اہم چوہدری برادران اور شیخ رشید صاحب ہیں جنہوں نے پہلے کولمبو سے نازل ہونے والے جنرل صاحب کی بھی بیعت کی تھی۔ شاید ان تینوں نے یہ تہیہ کیا ہوا ہے کہ نواز حکومت جس کسی کے جہاز کا رُخ موڑنے کی کوشش کریگی، یہ اُس کا ساتھ دیں گے اور جیسا کے اس بار نواز حکومت کی جانب سے علامہ صاحب کے طیارے کا رُخ موڑا گیا۔ لہزٰا اُن پر یہ فرض تھا کہ وہ پرویز مشرف کی طرح علامہ صاحب کا بھی ساتھ دیں۔

علامہ صاحب کی طرح شیخ صاحب بھی کمال زبانِ بیاں رکھتے ہیں۔ جیسے علامہ صاحب سینکڑوں کے جمِ حقیر کو اپنے سحر میں مبتلا کر لیتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح شیخ صاحب کو بھی نیوز چینلز پر بیٹھ کر بھولی عوام کو شیشے میں اتارنا خوب آتا ہے۔

ان دونوں لیڈران کے مابین مماثلت کی وجہ میری عقلدانی میں موجود دماغ میں تو یہی آتی ہے کہ چونکہ دونوں ہی بیوی لیس (wife less) ہیں۔ لہزٰا ان دونوں میں بولنے کا اتنا سٹیمنا ہے کہ یہ دونوں بڑی آسانی سے بیوقوف عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔ علامہ صاحب کی زوجہ پہلے ہی اللہ کو پیاری ہوچکی ہیں اور شیخ صاحب کو آج تک کوئی خاتون پیاری ہوئی ہی نہیں۔

علامہ صاحب کی تحریک انقلاب میں تحریک انصاف بھی کبھی کبھی شامل ہوتی دکھائی دیتی ہے اور گزشتہ دنوں تحریک انصاف کی اسلام آباد میں ہونے والی میٹنگ میں برطانوی طلاق یافتہ خان صاحب کی جانب سے یہ کہا گیا کہ وہ علامہ صاحب کے کچھ مطالبات سے ضرور اتفاق کرتے ہیں مگر ان کے الائنس میں شامل نہیں ہونگے۔

شکر ہے کہ تحریک انصاف کے برطانیہ سے طلاق شدہ چیئرمین نے انقلابی الائنس کا حصّہ بنے سے انکار کردیا اور شاید ایسا انہوں نے اس لئے بھی کیا کہ وہ پہلے ہی ایک صوبے میں انقلاب لا چکے ہیں اور باقی ملک میں انقلاب لانے کے لئے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں۔

مگر جو بھی کہیں۔ برطانوی طلاق یافتہ خان صاحب کی جانب سے بھی عوام کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیا جاتا۔ کبھی خان صاحب تپتی گرمی میں نیٹو سپلائی روکنے کے لئے دھرنے کی اپیل کر دیتے ہیں اور کبھی شدید سردی میں مہنگائی کے خلاف ریلی نکالنے کے احکامات دے دیئے جاتے ہیں اور اب خان صاحب کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ اگر حکومت نے ایک ماہ میں ان کے مطالبات پورے نا کئے تو وہ دس لاکھ لوگوں کے ساتھ 14 اگست کو لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کریں گے۔

کاش کہ خان صاحب کی برطانوی بیگم خان صاحب کو انقلابی دشت میں تنہا چھوڑ کر نا گئیں ہوتیں تو خان صاحب بھی بیوی بچوں کو ہمراہ لئے عید کے بعد چھٹیاں منانے یورپ کے کسی ملک میں عجائب گھر دیکھنے کا پروگرام بنا رہے ہوتے۔ اس طرح تحریک انصاف کے مسکین جیالے بھی 14 اگست کی چھٹی گھر میں آرام سے منا لیتے۔ اب جیالے بھگتیں سونامی کو۔

اب ذرا بات ہوجائے ایک اور پاکستانی نژاد برطانوی طلاق یافتہ بھائی کی۔ بھائی کے جوش خطابت سے کون واقف نہیں۔ بھائی جب بھی ٹیلی فون یا ویڈیو کے ذریعے لاکھوں میل دور بیٹھ کر خطاب کرتے ہیں تو پورے کراچی کی بیویاں اور مُطلقات سب کام کاج چھوڑ کر اپنے بھائیوں کے ساتھ بھائی کا خطاب سننے جلسہ گاہ پہنچ جاتی ہیں۔ بھائی اس دنیا میں وہ واحد مرد ہیں جن کی بات تمام عورتیں نا صرف سنتی ہیں بلکہ چوں چاں کئے بغیر ان پر من و عن عمل بھی کرتی ہیں۔

اِن کی جماعت کے رہنما بھی علامہ صاحب سے شرفِ ملاقات حاصل کرنے منہاج القرآن تشریف لائے تھے مگر علامہ صاحب اِن مُطلق بھائی کی جماعت کو بھی اپنی تحریکِ انقلاب میں شامل نا کرسکے۔ اور ایسا شاید اس وجہ سے بھی ہوا کیونکہ بھائی کی جماعت کے کچھ رہنما پچھلے سال جنوری میں علامہ صاحب کو سمجھانے حکومتی وفد کے ساتھ گئے تھے جب علامہ صاحب تین دن کے انقلابی چِلّے کے بعد حکومتی لالی پوپ لیکر اپنے پہلے وطن کینیڈا روانہ ہوگئے تھے۔

اُس وقت حکومت کی جانب سے علامہ صاحب کو لالی پوپ شاید اس لئے بھی با آسانی دیدیا گیا تھا کیونکہ اس حکومت کے سربراہ بھی ایک رنڈوے ہی تھے اور جیسا کہ کہتے ہیں 'لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے' تو ایک رنڈوے سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ ایک اور رنڈوے کو شیشے میں کیسے اتار کر کینیڈا چلتا کرنا ہے۔

بحرحال جو بھی کہیں پیپلز پارٹی حکومت کے رنڈوے صدر نے کیا خوب جھانسہ دیا تھا علامہ انقلابی کو۔ علامہ صاحب شکست کے باوجود بھی جیت کی خوشی میں دھمال ڈالتے کینیڈا پہنچے تھے۔

پانچ سال ایوان صدر میں گزارنے کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری اب بلاول ہاؤس میں بیٹھ کر آئے روز آنے والے انقلاب کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ وہ یقیناً اس بات پر بھی فخر محسوس کر رہے ہونگے کہ میں نے تو علامہ انقلابی کو بڑے آرام سے بہلا پھسلا کر واپس روانہ کردیا تھا۔ مگر شریف برادران کے گلے میں تو علامہ انقلابی نوک والی ہڈی کی مانند پھنس ہی گئے ہیں اور نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔

شاید اِن رنڈووں، مطلقوں اور مُجردوں کا ماننا یہ ہے کہ چونکہ ہماری زندگیوں میں سکون نام کی کوئی چیز نہیں تو ہم ملک میں سکون کیوں رہنے دیں۔ ٹھیک ہے اب ہمارے پاس ہماری سننے والیاں نہیں۔ مگر ہماری قوم کی بیوقوف عوام تو ہے جس کو انقلاب کا جھانسہ دے کر کسی بھی وقت بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔

تبصرے (21) بند ہیں

سید عمران علی شاھ Jul 12, 2014 12:21pm
kind of different that never read before.. very nice and good .
Dogar Jul 12, 2014 05:01pm
I wonder how can Dawn allow such farce in the name of freedom of speech. Utter crap.
Sehrish Khan Jul 12, 2014 06:46pm
This article doesn't even worth k koi isey perhey. Intehayi fazool ilfaaz ka istemal hai. Apna mayar he improve ker lain kam se kam.
Irfan Anwar Jul 12, 2014 08:58pm
dawn bhi agar aisa non sense qism ka material publish krna shuru kr de ga to Allah hi hafiz hai
zahid Jul 13, 2014 11:13am
not surprised on writer s moral values,
Qaisar Jehangir Jul 13, 2014 12:09pm
Dawen ko padtha hi kon hai
Asif Nadeem Jul 13, 2014 02:09pm
I think writer is biased. He is totally negative person.
Zain Hussain Jul 13, 2014 07:19pm
How dare to use such a bad language about an Aalim. I don't have words to say about this ugly & cheap writer. This writer is not even equal to dust of his shoes & not even worth to stand in front of him. Why Dawn allowed & published this ugly & cheap article.
Ch Iqbal Jul 13, 2014 09:24pm
Its kind of LAYMAN story. Its not upto standards of DAWN, they must look these LAYMAN people. It was waste of time to even read few lines of it.
USF Jul 14, 2014 04:01am
Bad writing.
shoaib ali Jul 14, 2014 01:31pm
@USF: sharm aani chahiye in biky hoye logon ko jo aesa mawad publish krty hain
shoaib ali Jul 14, 2014 01:32pm
شرم آنی چاہیے ایسا مواد پبلش کرنے والوں کو
farhan Jul 14, 2014 02:51pm
Chawwal
khurram Jul 14, 2014 03:48pm
fazool kisam ka, lagata hay lifafa mila hay
QAISAR NADEEM Jul 14, 2014 03:57pm
SHAME ON THIS WRITER AND DAWN NEWS.. HOW THIS KIND OF PEOPLE WRITE ABOUT NATIONAL HERO IMRAN KHAN, I AM SURE WRITER IS MENTALLY SICK AND NEED TO BE HOSPITALIZED.
khalil ur Rehman Jul 14, 2014 06:38pm
what a unique observation, correlation is also valid from the medical and social point of view. the facts has been presented in a humrous way. appreciated.. carry on dear.
Amir Jul 14, 2014 06:51pm
**Bilkul thek kaha ap ny.....realy True keep it up...(Y)
عمران خان Jul 15, 2014 04:31am
شادی کے سائیڈ ایفیکٹس ڈان اردو ایک معتبر ادارہ ہے ، میرے خیال میں اس پہ سستی اور بازاری زبان اور لب و لہجے پر مبنی تضحیک آمیز تحریروں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جبکہ یہ تحریر جس پیرائے میں بیان کی گئی ہے وہ کسی بیمار ذہن کی تخلیق ہی ہوسکتی ہے، جن شخصیات کو اس تحریر میں نشانہ بنایا گیا ہے، پاکستان عوام کا اکثریتی نہ سہی، اقلیتی ہی سہی حصہ ان کو اپنا ہیرو مانتا ہے، اس تحریر سے ان ہزاروں افراد کے دلوں کو ٹھیس پہنچی ہے جو ڈاکٹر طاہر القادری یا عمران خان سے نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں، ہزارون اس لیے کہا ہے کیونکہ اس تحریر کے پڑھنے والے ہزاروں سے بڑھ کر نہیں ہوسکتے جبکہ ان شخصیات کے چاہنے والے لاکھوں سے کسی طور کم نہیں، اس حوالے سے تو یہ ثابت ہوا کہ نوید نسیم کو چاند برا لگتا ہے، اتنا برا کہ اس نے چاند پر تھوکنے کی کوشش کی ہے، جس کے نتیجے میں ۔۔۔۔۔۔
Faique Hussain Jul 15, 2014 08:43am
Intah hi behood article, lagat hy ye kise siyasi chamchy ny gullo but ya najam sethi but banny ki khawish main apni gandi zahniyat ki akasi ki hy, ye saysi chamchy pakistani Fiza main Badboo ki tarah rahty hain jo chai unko kaha kar pakistani fiza badboodar kar sakta hy
jamil ahmad Jul 15, 2014 01:59pm
eska matlab yeh hoa keh jin geadron ki bivian hen woh un k lad nakhry pooray krny py khush rehty hen unhen mulk ki koi fikr nhen,
ali sindhi Jul 15, 2014 09:29pm
such a great piece of article, i am impressed keep writing