قومی شناختی کارڈ اور گونگا مصلّی -- 2

اپ ڈیٹ 21 جولائ 2014
جو چوہدری اسے کبھی سیدھے نام سے بھی نہیں پکارتا تھا، آج سیاست کی باتیں بتا رہا تھا اوردادا کے تبصروں پر داد دے رہا تھا۔ -- السٹریشن خدا بخش ابڑو
جو چوہدری اسے کبھی سیدھے نام سے بھی نہیں پکارتا تھا، آج سیاست کی باتیں بتا رہا تھا اوردادا کے تبصروں پر داد دے رہا تھا۔ -- السٹریشن خدا بخش ابڑو

یہ اس کہانی کا دوسرا حصّہ ہے، پہلا حصّہ پڑھنے کے لئے کلک کریں


گاؤں واپسی کے سفر میں وہ اسی کے سحر میں کھویا رہا۔ زندگی میں پہلی بار کسی حسینہ نے اور وہ بھی "افسر" حسینہ نے اُس سے یوں ہنس کر بات کی تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ یہ شناختی کارڈ کی بدولت تھا ورنہ وہ تو ایک ایسی ذات سے تعلق رکھتا تھا جسے دیہی پنجاب میں کوئی بھی معزز نہیں سمجھتا۔

پنجاب کے ان دراوڑ نژاد باسیوں کو ہزاروں سال گزر جانے کے بعد بھی حملہ آور جہازیوں کی اولادوں نے کبھی انسان تک نہیں سمجھا۔ وہ خود کو کوس رہا تھا کہ پہلے شناختی کارڈ بنوانے کیوں نہیں آیا اور اس کے طفیل آنے والے اچھے دنوں کے سنہرے سپنے دیکھ رہا تھا۔

جس روز ڈاکیے نے 'نادرا' کا سفید لفافہ اسے لا کر دیا تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اٹھارہ سالہ زندگی میں پہلی بار ڈاکیا اس کے لیے کچھ لے کر آیا تھا۔

اب وہ گاؤں بھر کی دیگر باتوں کے علاوہ صوبائی اور ملکی سیاست کی باتیں بھی غور سے سنتا تھا اگرچہ اسے سمجھ کسی بات کی نہیں آتی تھی۔ وہ اکثر منظور سے ریاست اور قانون کی باتیں بھی پوچھتا تھا، جن میں سے کم ہی کسی بات کا جواب منظور کے پاس ہوتا۔

ایک دن منظور نے اسے ایک ایسی بات بتائی جسے وہ بمشکل سمجھ سکا لیکن جب سمجھ آئی تو اسے ایسا لگا جیسے وہ ایک ہی لمحے میں تعلیم یافتہ اور باشعور ہو گیا ہے۔

بات صرف اتنی سی تھی کہ ہر شہری کے کچھ حقوق ہوتے ہیں اور کچھ فرائض ہوتے ہیں۔ وہ اپنے فرائض پورے کرنے کا پابند ہے، جبکہ حکومت پابند ہے کہ وہ شہری کے حقوق کا خیال رکھے۔

مانک کی آنکھیں تب حیرت سے کھل گئیں جب منظور نے اسے چند چیدہ چیدہ شہری انسانی حقوق بتائے۔ اگلے دس پندرہ دن اپنی سمجھ کے مطابق وہ اپنے ذہن میں انہی باتوں کی جگالی کرتا رہا اور الیکشن آ گئے۔

الیکشن کے روز اس کی ماں اور بوڑھے دادا نے صاف دھلے ہوئے کپڑے پہنے، سب نے اپنے اپنے شناختی کارڈ سنبھال کر پاس رکھ لیے۔ صبح صبح چوہدری امتیاز کا بیٹا صحن میں کھڑا پکار رہا تھا۔ "بابا اللہ یار! ماسی بکھاں" مانک کی ماں نے آگے جا کر اس کے شانے پر ہاتھ رکھا۔

"ماسی، باہر ہائی ایس تیار کھڑی ہے، آؤ، تم لوگوں کو پولنگ اسٹیشن لے جانا ہے۔" چوہدری امتیاز کے بیٹے نے بڑی خوش خلقی سے کہا۔ سب کے شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں ہائی ایس میں بٹھایا گیا۔

پولنگ اسٹیشن کی گہماگہمی اپنی جگہ، لیکن ایم این اے کے امیدوار چوہدری شفیع محمد کے مقامی سپورٹر چوہدری امتیاز نے جس خوش اخلاقی سے اس کی ماں اور بوڑھے دادا کا استقبال کیا، اور جس بے تکلفی سے اس کا شانہ تھپتھپایا، مانک کو محسوس ہوا کہ یہ سب شناختی کارڈ کی برکات تھیں۔

ووٹ ڈالنے کے بعد ایک بڑے شامیانے کے نیچے بیٹھ کر اس نے اپنی ماں اور دادا کے ہمراہ چوہدری صاحب کی جیب خاص سے بریانی کھائی اور پیپسی پی۔ ایک عرصے بعد اسے اتنی زیادہ بریانی کھانے کو ملی تھی۔

جو چوہدری امتیاز اسے کبھی سیدھے نام سے بھی نہیں پکارتا تھا، آج ان کو سیاست کی باتیں بتا رہا تھا اور اس کے دادا کے تبصروں پر داد دے رہا تھا۔ مانک بار بار جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنے شناختی کارڈ کو ٹٹول رہا تھا۔ ان کے گھر میں شاید ہی اس کے علاوہ کاغذ کا کوئی ٹکڑا یا تحریر موجود ہو، اور یہ واحد تحریر اس کے لیے بہت قیمتی بن چکی تھی۔

الیکشن گزر گئے، زندگی پھر معمول پر آ گئی۔ چوہدری شفیع محمد ایم این اے اور وفاقی وزیر بن چکا تھا۔ چوہدری امتیاز علی اور ان کے خاندان کو نوازا جا چکا تھا اور علاقے کے اکثر تھانے دار، تحصیل دار، پٹواری اور قانون گو اس کی نظر کرم کے بعد اپنے عہدوں پر مزید پختہ اور باجبروت ہو چکے تھے۔

مانک کی زندگی کا کینوس پھر کھیتوں سے اپنے گھر کے درمیان سکڑ گیا۔ کئی دن بیتے تو 'نادرا' والی حسین لڑکی، الیکشن کا یادگار دن، اور چوہدری امتیاز کی باتیں قصۂ پارینہ بن گئیں۔ لیکن شناختی کارڈ پر لکھے الفاظ جو وہ پڑھ بھی نہ سکتا تھا، اس کے ذہن و دماغ پر ثبت ہو چکے تھے۔

گرمیاں ختم ہو گئیں، بھادوں کا حبس گرمیوں سے بھی بڑھ کر جان لیوا تھا۔ مانک اب بھی کھیتوں سے فارغ ہو کر نلکے پہ نہاتا اور پھر دیر تک ڈیرے پر بیٹھا دوستوں کو ہیر سنایا کرتا تھا۔

ایک شام وہ کھیتوں سے سیدھا گھر آیا تو وہاں خواتین کا جمگھٹا دیکھ کر اسے تشویش سی ہوئی۔ گھر کے گرد چاردیواری نہ تھی، اور گھر بھی کیا تھا، بس ایک جھونپڑی تھی جس میں گھر کے تین افراد رہتے تھے۔ وہ دوڑ کر جھونپڑی کے دروازے پر آیا تو دیکھا کہ اس کا دادا نیم بیہوش پڑا ہانپ رہا تھا اور اس کے سر سے خون ایک باریک سی دھار کی صورت میں بہہ کر اس کی سفید داڑھی میں کہیں جذب ہو گئی تھی جبکہ ہمسائیاں اسے پانی پلا کر ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھیں۔


جاری ہے.......


زکی نقوی اردو لٹریچر میں گریجویٹ ہیں اور مختصر اردو کہانیاں، مضامین اور مزاحیہ کالمز لکھتےہیں. آج کل جسٹس پروجیکٹ پاکستان کے ساتھ بطور لیگل ایڈوائزر کام کر رہے ہیں.

تبصرے (2) بند ہیں

رضوان آفریدی Jul 20, 2014 07:08pm
نہایت دلچسپ۔۔۔۔ زکی صاحب بہت اچھا لکھتے ہیں۔ مذید تحاریر کا انتظار رہے گا۔
shoaib Jul 21, 2014 11:29pm
Boht alla janab..