غزہ سٹی : میرے دن کا آغاز صبح چھ بجے فوٹوگرافی کے ساتھ شروع ہوتا ہے اگرچہ جنگ یہاں معمول کا حصہ بن چکی ہے مگر کچھ نہ کچھ حیرت انگیز نظر آہی جاتا ہے۔

یہ بہت ضروری ہے کہ دروازے سے باہر نکل کر آپ گزشتہ رات کی بمباری کے پہلے منظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیں جبکہ دوپہر میں ہم ہسپتال کے مردہ خانوں میں جاکر ان خاندانوں کو دیکھتے ہیں جو اپنے پیاروں کی میتیں لینے کے لیے آئے ہوتے ہیں۔

جب یہ معمول ٹوٹتا تو اس کی وجہ اچانک ہی حالات میں کوئی خوفناک تبدیلی آنا ہونا ہوتا تھا ایسا ہی کچھ 2011ءمیں لیبیا میں بھی ہوا تھا جب ہمیں فوجیوں نے گرفتار کرلیا جبکہ ہمارا ڈرائیور مارا گیا۔

ایسا ہی لمحہ غزہ میں بدھ کے روز اس وقت ہمارے سامنے آیا جب غزہ سٹی کے ساحل پر ہمارے سامنے کھیلنے والے بچوں کی قسمت اچانک ہی تبدیل ہوگئی۔

سہ پہر کے چار بجے ہم اس وقت ساحل پر واقع اپنے ہوٹل پہنچے تھے تاکہ تصویر کو بھیجا جاسکے جب اچانک ہم نے ایک زوردار دھماکہ سنا، ہم فوری طور پر کھڑکی کی جانب لپکے تاکہ دیکھ سکے باہر کیا ہوا ہے۔

ہم نے دیکھا کہ بندرگاہ کی دیوار پر اسرائیلی بم یا میزائل سے سوراخ ہوگیا ہے اور وہ جل رہی ہے، ایک بچہ دھویں میں سے نکلا اور ملحقہ ساحل کی جانب بھاگتا چلا گیا۔

میں نے پہلے دھماکے کے تیس سیکنڈ کے اندر اپنا کیمرہ نکال لیا اور ہیلمٹ و باڈی آرمر چڑھایا ہی تھا کہ دوسرا دھماکہ ہوا، وہ بچہ جو ہم نے بھاگتے ہوئے دیکھا تھا اب مرچکا تھا اور ریت پر پڑا تھا، جبکہ اس کے علاوہ تین لڑکے اور تھے جو کچھ لمحوں پہلے وہاں کھیلنے میں مصروف تھے۔

میں کچھ دیر میں ساحل پر پہنچا اپنے آرمر سوٹ کی وجہ سے میں کافی بھاری محسوس کررہا تھا اور جاتنا تھا کہ ساحل پر پرجانا بہت خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

یعنی کوئی اسرائیلی ڈرون میرے سائے کی تصویر کھینچتا جسے اسرائیل میں کسی لیپ ٹاپ تک پہنچادیا جاتا، میرے کیمرے کو غلطی سے ہتھیار سمجھا جاسکتا تھا اور جب بچوں کو بھی مارا جاسکتا ہے تو پھر میرا یا کسی اور کا تحفظ کون کرے گا؟

میں نے لوگوں کا ایک گروپ بچوں کی مدد کے لیے بھاگتے ہوئے دیکھا، میں ان کے ساتھ شامل ہوگیا، اور یہ سوچ کر دوڑنے لگا کہ میں اس ہجوم میں کچھ محفوظ رہوں گا، حالانکہ مجھے معلوم تھا کہ یہ خیال دھوکہ بھی ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ہجوم حالات کو زیادہ بدتر بھی بناسکتا ہے۔

ہم اس جگہ پہنچے جہاں بے جان کچلے جسم پڑے تھے، یہ بچے ہر قسم کی مدد سے بے نیاز ہوچکے تھے اور وہ فوراً ہی ہلاک ہوگئے تھے۔

وہ افراد جو ان کی مدد کے لیے بھاگتے ہوئے آئے وہ صدمے اور پریشانی کی کیفیت میں نظر آرہے تھے۔

اس روز کچھ دیر قبل میں نے ایک شخص اور ایک بارہ سالہ بچے کی تصاویر اتاری تھیں، یہ دونوں اس وقت ایک بم کا نشانہ بن گئے جب وہ غزہ سٹی کے جنوب میں اپنی گاڑی پر جارہے تھے جبکہ ان کے ساتھ موجود ایک معمر خاتون زخمی ہوگئی تھیں۔

اس وقت غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں، یہاں بم کسی بھی وقت اور کہیں بھی برس سکتے ہیں۔

ایک چھوٹی سی پانی یا بجلی جیسی سہولیات سے محروم جیٹی جہاں سورج آگ برساتا نظر آتا ہے، کسی بھی طرح ایسی جگہ نظر نہیں آتی جہاں اسرائیلی فوج کے مبینہ اہداف یعنی حماس کے کارکن یا اسرائیلی زبان میں ' عسکریت پسند ' اکثر آتے ہوں گے، بلکہ وہ تو صرف ان بچوں کو نشانہ بنا دیتے ہیں جو گرمی سے بچنے کے لیے ساحل پر کھیل رہے ہوتے ہیں کہ اچانک کوئی دھماکہ انہیں ہر طرح کی تکالیف سے نجات دلا دیتا ہے۔

بشکریہ نیو یارک ٹائمز

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں