'اسلام آباد اور کابل مشترکہ ضابطہ اخلاق پر کام کررہے ہیں'

22 جولائ 2014
وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے امورِ خارجہ طارق فاطمی۔ —. فائل فوٹو
وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے امورِ خارجہ طارق فاطمی۔ —. فائل فوٹو

واشنگٹن: ملک کے سب سے اعلٰی سطح کے سفارتکار کا کہناہے کہ پاکستان اور افغانستان دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں باہمی تعاون کو باقاعدہ بنانے اور ایک دوسرے کی شکایات دور کرنے کے لیے ایک ضابطہ اخلاق پر کام کررہے ہیں۔

وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے خارجہ امور طارق فاطمی نے اس کے علاوہ یہ بھی کہا کہ پاکستان امریکا سے توقع رکھتا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد بھی دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کیے جانے والے اخراجات میں اپنا حساب بے باق کردے گا۔

وزارت برائے خارجہ امور نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے طارق فاطمی نے کہا کہ اس سال کے آخر میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی اور ہندوستانی وزیراعظم کے درمیان ملاقات کا پاکستان خیر مقدم کرے گا۔

مشیر برائے خارجہ امور نے کہا کہ اس موقع پر تمام متعلقہ امور کا احاطہ کیا جائے گا، مثلاً دونوں فرقین کو ایک دوسرے سے پیدا ہونے والی شکایات، سرحدی انتظام، دونوں ملکوں کی افواج اور ان کے سیکیورٹی و انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان تعاون میں توسیع دینے پر غور کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان یہ پسند کرے گا کہ پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں سے نمٹنے پر جو اخراجات ہورہے ہیں، امریکا ان کی ادائیگی کرے۔

اب تک امریکا کی جانب سے پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کے ذریعے یہ ادائیگی کی جارہی تھی، جسے اسی مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ تاہم یہ فنڈ افغانستان سے متوقع امریکی انخلاء کے بعد ختم ہوسکتا ہے۔

طارق فاطمی نے کہا ’’اب بھی اگر امریکی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مقاصد مزید ایک یا دو سال کے لیے نامکمل رہ جاتے ہیں اور اگر پاکستان کو ان خدمات کی فراہمی جاری رکھنی پڑتی ہے تو ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان اخراجات کی ادائیگی جاری رکھی جائے گی۔‘‘

انہوں نے امریکی میڈیا کی اس رپورٹ کی تردید کی کہ پاکستان نے امریکا سے کہا تھا کہ وہ اپنے انخلاء کے منصوبے پر نظرثانی کرے، اس لیے کہ اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکے ہیں۔

وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ امریکی افواج دونوں ملکوں کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت افغانستان میں تعینات کی گئی تھی، اور ہمارا حق نہیں ہے کہ ہم اس پر تبصرہ کریں کہ انہیں کتنا عرصہ رکنا چاہیٔے یا نہیں رکنا چاہیٔے۔

ان کا کہنا تھا ’’حکومتِ پاکستان نے کبھی امریکی افواج کی تعیناتی کے سلسلے میں عوامی یا نجی سطح پر کسی قسم کا ترجیحی بیان نہیں دیا ہے۔‘‘

تاہم امریکی میڈیا نے پاکستان کے ایک سینئر دفاعی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ اسلام آباد نے واشنگٹن سے کہا تھا کہ وہ اپنے انخلاء کے شیڈول پر نظرثانی کرے۔

طارق فاطمی نے ان قیاس آرائی کو مسترد کردیا کہ اگر امریکا کے افغانستان میں طویل قیام سے پاکستانی فوجی کارروائی میں مدد ملے گی، تو اس آپریشن کا آغاز 2010ء میں زیادہ بہتر ہوتا جب کہ افغانستان میں امریکیوں کی موجودگی کئی سالوں کے لیے تھی۔

وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ یہ کارروائی اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک کہ دہشت گردی کے خاتمے کے بنیادی مقاصد حاصل نہیں کرلیے جاتے۔

’’عسکریت پسندوں کی سیاسی وابستگی، نسل و قومیت کے حوالے سے کوئی تفریق یا امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ تمام عسکریت پسند نشانے پر ہیں اور اس آپریشن کے مقاصد جب تک حاصل نہیں ہوجاتے، اسے طویل عرصے تک جاری رکھا جائے گا۔‘‘

طارق فاطمی نے وضاحت کی کہ اس کے دوسرے مرحلے میں تعمیر نو پر توجہ مرکوز کی جائے گی اور پناہ گزینوں کی دوبارہ آباد کاری کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا ’’یہ ایک طویل، مشکل اور مہنگی کارروائی ہے، لیکن اگر ملک کو ایک جدید، اعتدال پسند اور ترقی یافتہ ریاست کے طور پر سامنے لانا ہے تو یہ کارروائی کی جائے گی۔‘‘

امریکی میڈیا کی حالیہ رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نےحقانی نیٹ ورک کے عسکریت پسندوں کو فاٹا سے فرار کی اجازت دی تھی، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے طارق فاطمی نے کہا کہ اس قدر بڑے پیمانے پر کیا جانے والا فوجی آپریشن کسی خلاء میں نہیں شروع کیا جاسکتا۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’’لوگ فوجی دستوں اور آپریشن کے دیگر عناصر کی نقل و حرکت دیکھ سکتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بہت سے لوگ فرار ہوگئے ہیں، لیکن جہاں تک پالیسی کا معاملہ ہے یہ بات وضاحت سے بیان کردی گئی تھی کہ رنگ و قومیت سے قطع نظر تمام عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔‘‘

طارق فاطمی نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ تمام دہشت گردوں کا صفایا کردیا گیا ہے، عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے پاکستان نے افغانستان سے درخواست کی تھی کہ جب بھی ممکن ہو وہ اپنے علاقے میں انہیں پکڑے۔

انہوں نے کہا کہ ’’دہشت گردی کو شکست دینے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے بین الاقوامی سرحد کے دوسری جانب اس قسم کی دوطرفہ کارروائی ضرروی ہے۔‘‘

مشیر برائے خارجہ امور نے کہا کہ دیگر ملکوں کے معاملات میں مداخلت کی پالیسی نے کسی کو کبھی فائدہ نہیں پہنچایا اور اس وقت جنوبی ایشیا میں انہوں نے بھی اس کا احساس کرلیا ہےاور اپنی پالیسیوں میں ایک انقلابی طرز کی تبدیلی پیدا کرلی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر کی دعوت پر افغانستان میں ان کے حالیہ وزٹ کے دوران دونوں فریقین نے ایک مشترکہ ورکنگ گروپ پر اتفاق کیا تھا، جو ایک دوسرے کی شکایات کی جانچ پڑتال کرے اور انہیں دور کرنے لیے اقدامات اُٹھائے۔

تبصرے (1) بند ہیں

راضیہ سید Jul 22, 2014 11:59am
کہا جاتا پرانی حکومتوں کو برا بھلا تھا اور اب کیا وہی جا رہا ہے کہ جناب دھڑا دھڑ میشر مقرر کیے جا رہے ہیں اور وزیر خارجہ کا نام و نشان ہی نہیں تاکہ کوئی خارجہ پالیسی وضع کی جا سکے ،کبھی تو ایسے ایسے وزیر خارجہ بھی دیکھنے کو ملے جن کے لباس اور زیورات پر ہمسایہ ممالک کو خصوصی کالم اور آرٹیکل لکھنا پڑے اور اب وزیر خارجہ کے معاملے میں ایک چپ سو سکھ والی بات ہے ۔۔۔۔اب طارق فاطمی صاحب جیسا کہ فرما رہے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان دونوں ایک ہی جیسے ضابطہ اخلاق پر کام کر رہے ہیں صرف سننے میں ہی یہ بیان اچھا ہے ، افغانستان بار بار الزام عائد کر رہا ہے کہ سرحد پار سے دراندازی ہو رہی ہے اسی طرح ہم پر طرح طرح کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور بالکل اس طرح مانتے جا رہے ہیں کہ ہاں ہاں جناب میں ہی ہاتھی ہوں ۔ اسی طرح اب کہا جا رہا ہے کہ عسکریت پسندوں کو ختم کر کے دم لیں گے ، بھائی ان عسکریت پسندوں کو لایا کون یہ بھی تو دیکھ لیں ، اتنے اجڑے ہوئے لوگوں کی بستیاں بسانے کے بارے میں پہلے سوچا جاتا تو آج لوگوں کو پیدل بھی اتنا سفر نہ کرنا پڑتا ۔ ، یہ بھی خوب کہی کہ ہم آپ کے اور اپنے دہشتگرد مار رہے ہیں آپ بس پیسہ دے دیں کیا پاکستان اب تک دہشتگردی کے مقاصد کا تعین نہیں کر سکا ۔۔۔۔۔۔ایک ایسی جنگ جو امریکا ، افغانستان اور ہمارے حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے ہمارے گلے پڑ گئی اب اسے ڈھول کی طرح بجانا تو ہوگا ناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔