کراچی : انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات میں اضافے کو دیکھتے ہوئے ہیومین رائٹس کمیشن کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے گزشتہ سال ستمبر سے رینجرز کی قیادت میں جاری کراچی آپریشن کو اہداف کے حصول میں ناکام قرار دیا ہے۔

یہ بات فیکٹ فائنڈنگ مشن نے کراچی میں سترہ سے بیس جولائی تک امن و امان کی صورتحال کا تجزیہ، میڈیا، سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں، مانیٹرز، حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور متاثرہ خاندانوں سے لی گئی آراء کے بعد ایک پریس کانفرنس میں بتائی کہ آپریشن کے مقاصد کو حاصل نہیں کیا جاسکا۔

کراچی پریس کلب میں صحافیوں کو بریفننگ دیتے ہوئے آیچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل آئی اے رحمان نے کہا کہ ماسوائے قتل کے دیگر جرائم کی رپورٹنگ کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے، جب آپریشن کا آغاز ہوا تھا تو اس کا مقصد شہر کا امن بحال کرنا تھا، مگر لگتا ہے کہ اس بارے میں کوئی مناسب منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔

ڈی جی رینجرز کا ایچ آر سی پی ٹیم سے ملنے سے انکار

آئی اے رحمان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ رینجرز ڈائریکٹر جنرل نے ایچ آر سی پی کی ٹیم سے ملنے سے انکار کردیا۔

انہوں نے کہا "ہمیں ڈی جی رینجرز سے ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا تھا، جب ہم دیے گئے وقت پر رینجرز ہیڈکوارٹرز پہنچے تو ہمیں مرکزی دروازے پر بتایا گیا کہ ملاقات کو منسوخ کردیا گیا ہے"۔

انہوں نے کہا "ہمیں رینجرز کے خلاف متعدد شکایات موصول ہوئی تھیں جن پر ہم تبادلۂ خیال کرنا چاہتے تھے، مگر رینجرز کے سربراہ ایک بڑے، مصروف اور بااختیار شخص ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن بغیر کسی منصوبہ بندی کے ایڈہاک بنیادوں پر شروع کردیا گیا تھا، اور اس وقت یہ خیال ذہن میں تھا کہ پولیس بدامنی اور خونریزی ملوث عناصر کی روک تھام نہیں کرسکتی۔

آئی اے رحمان نے کہا "آپریشن کے دوران پولیس کی صلاحیت میں اضافے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا، ایڈہاک اقدامات کے باعث زیادہ بہتر نتائج سامنے نہیں آئے، جبکہ پولیس اور رینجرز کے درمیان ورکنگ کیمسٹری اب تک دیکھنے میں نہیں آئی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کراچی میں کوئی آپریشن نہیں کررہی بلکہ بمشکل ہی متحرک پولیسنگ کا حصہ بنتی ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس کے سربراہ اور ان کی ٹیم نے ایچ آر سی پی کو آگاہ کیا ہے کہ کراچی میں رینجرز کی قیادت میں 310 روز سے جاری آپریشن میں اسٹریٹ کرائمز کی شرح میں کمی آئی ہے اور کیسز کی رجسٹریشن کی شرح بڑھی ہے، مگر عوامی تاثر پولیس کے دعویٰ سے بالکل مختلف ہے جس کو بدلنے کے لیے کام کیے جانے کی ضرورت ہے۔

پولیسنگ رینجرز کا کام نہیں

انہوں نے تجویز دی ہے کہ رینجرز کا کردار عارضی اور گندگی صاف کرنے کی حد تک محدود ہونا چاہیٔے کیونکہ پولیسنگ پیراملٹری فورس کا کام نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی پیراملٹری فورس کو کسی واضح حکمت عملی کے بغیر طلب کیا جاتا ہے تو ان کے شہر میں قیام کے دورانیے کا تعین بھی کردیا جاتا ہے، کیونکہ غیرمعینہ دورانیہ فورس کے نظم و ضبط کو کمزور کرسکتا ہے۔

ایک طرف جب دیگر اداروں کو مضبوط بنانے پر کام نہیں کیا جارہا ہے، وہیں کراچی میں کام کرنے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد صرف 26 ہزار ہے جن میں سے نصف وی آئی پی ڈیوٹی پر تعینات ہوتے ہیں۔

ایچ آر سی پی کی ٹیم، جس نے وزیراعلیٰ سندھ سے بھی ملاقات کی تھی، کا کہنا تھا کہ وفاق اور صوبے کے درمیان آپریشن کی ملکیت کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں "وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ہم آہنگی موجود نہیں"۔

کمیشن کی ٹیم نے تجویز دی ہے کہ وزیراعظم اور وزیرداخلہ کراچی کے فضائی دوروں کی بجائے مسائل کو حل کرنے کے لیے مزید دلچسپی دکھاتے ہوئے یہاں کچھ روز کے لیے قیام کریں۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ

ایچ آر سی پی نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے، کیونکہ یہاں ایسا آزاد ادارہ موجود نہیں جو عوامی شکایات کو سنے اور متعلقہ حکام تک انہیں پہنچائے۔

ایچ آر سی پی نے کہا "یہاں آپریشن پر نظر رکھنے کے لیے کوئی آزاد ادارہ موجود نہیں جبکہ حکومتی وعدے کے مطابق اس حوالے سے کمیشن بھی قائم نہیں کیا گیا، اسی طرح شکایات کے ازالے کے لیے قائم کمیٹی کی ساکھ بھی زیادہ اچھی نہیں، اسی وجہ سے بیشتر شہری اس کمیٹی سے رجوع کرنے کی بجائے مسلسل اپنی شکایات ایچ آر سی پی میں جمع کرارہے ہیں"۔

ایچ آر سی پی سے اپنی شکایات کے ساتھ رجوع کرنے والے ستر خاندانوں کا حوالے دیتے ہوئے آئی اے رحمان نے بتایا کہ ان لوگون کا کہنا تھا کہ ان کے عزیز تاحال لاپتہ ہیں، حالانکہ مبینہ طور پر انہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی پکڑ کر لے گئے ہیں، کچھ کو پولیس اسٹیشنز یا رینجرز کی گاڑیوں میں لے جایا گیا، کچھ واقعات میں گمشدہ افراد کے موبائل فونز پر آخری کال کسی سیکیورٹی عہدیدار کی پائی گئی۔

متاثرین کے دکھ کے ازالے کے لیے مناسب اقدامات اور متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے آئی اے رحمان نے کہا کہ کوئی بھی مہذب حکومت اپنے متاثرہ شہریوں کو ان حالات میں نظر انداز نہیں کرسکتی۔

بھتہ خوری سے متعلقہ جرائم میں اضافہ

ایچ آر سی پی کی ٹیم جس نے کاروباری برادری کے رہنماﺅں سے بھی ملاقاتیں کیں، کا کہنا تھا کہ ایک مارکیٹ کے تاجر ہی روزانہ کی بنیاد پر تحفظ کے نام پر ایک کروڑ روپے ادا کررہے ہیں، جو کہ 1995ء کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔ جب پورے شہر میں کاروباری افراد مل کر روزانہ 80 لاکھ روپے دیتے تھے۔

ایچ آر سی پی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دکاندار اور تاجر اس پروٹیکشن منی کو اپنے کاروباری اخراجات کا حصہ سمجھتے ہیں اور اس کا بوجھ وہ صارفین کے کندھوں پر ڈال دیتے ہیں۔

آئی اے رحمان نے کہا کہ ہر وہ جماعت یا گروپ جس کا شہر کے کسی بھی حصے میں اثررسوخ ہے وہ بھتہ خوری میں ملؤث ہے۔

سیاسی جماعتوں نے کراچی کو تنہا چھوڑ دیا

ایچ آر سی پی کی ٹیم نے پاکستان پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی اور دیگر کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کیں اور انہیں یہ احساس ہوا کہ ان جماعتوں نے کراچی کو تنہا چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ صورتحال کو درست کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔

آئی اے رحمان نے کہا کہ تمام جماعتوں نے جاری آپریشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، تاہم خاموش رہنے کو ترجیح دی۔

انسانی حقوق کے ادارے کا ماننا ہے کہ کراچی میں بدامنی، ریاستی اداروں کے انہدام اور شہریوں کی کبھی نہ ختم ہونے والی مشکلات ایک سیاسی بحران کے اثرات ہیں اور اس سے نکلنے کا راستہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سندھ کی دو مرکزی سیاسی جماعتیں مل کر ایسا لائحہ عمل تیار نہ کریں جس کے ذریعے معاملات درست کیے جا سکیں۔

ایچ آر سی پی کا ماننا ہے کہ مؤثر لوکل گورنمنٹ سسٹم کی غیرحاضری سے شہر کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے، جبکہ جمہوریت کو کراچی میں سخت چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں کافی حد تک خودغرضی کے رویے اپنائے ہوئے ہیں اور انہیں جبری گشمدگیوں، تشدد، زیرحراست ہلاکتیں، معاشی استحصال اور دیگر مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں۔

اقدامات کی شرح

ایچ آر سی پی نے انتباہ کیا "بیشتر حلقے کھلے عام آمریت کی واپسی کی بات کرنے لگے ہیں، اس طرح کے واضح اشاروں کو نظرانداز کرنا ریاست کے مفاد کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے"۔

ایچ آر سی پی نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال اس وقت تک بہتر نہیں ہوسکتی جب تمام جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی نہیں کی جاتی۔

کمیشن نے کہا کہ ایچ آر سی پی سے بات کرنے والے کراچی آپریشن میں ایکشن کی شرح سے کچھ زیادہ متاثر نہیں۔

ایچ آر سی پی نے کہا "یہاں ایسے جرائم پیشہ گروپس موجود ہیں جن کو سیاسی جماعتوں، طالبان اور عسکریت پسند گروپس کی حمایت حاصل ہے"۔

فیکٹ فائنڈنگ مشن کی قیادت انسانی حقوق کمیشن کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے کی جبکہ ان کے ساتھ کامران عارف، سابق چیئرپرسن عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی غازی صلاح الدین، رولینڈ ڈی سوزا، عظمٰی نورانی، امرناتھ موٹو مل اور اختر بلوچ اور آئی اے رحمان وائس چیئرپرسنز طاہر حسین خان اور سینئر کوآرڈینیٹر نجم الدین اور شمس الدین شامل تھے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Ahsan Faruqui Jul 23, 2014 07:55am
I would love to know who is not criminal in this country. PM, Opposition, politicians, Law enforcement, media and Public, all are sailing in the same boat-corrupt and dishonest. All of the political parties in Karachi are involved in Bhatta business so one shouldn't expect Them to do some thing to eliminate Bhutta culture there!