حکمران اور سیاسی قیادت ملک سے باہر

اپ ڈیٹ 22 جولائ 2014
حکومتی اور حزبِ اختلاف کی قیادت ملک سے باہر ہے اور حکومت و سیاست دوسرے درجے کے رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے۔ —. فائل فوٹو
حکومتی اور حزبِ اختلاف کی قیادت ملک سے باہر ہے اور حکومت و سیاست دوسرے درجے کے رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: ایسے حالات میں جب کہ ملک عملی طور پر جنگ سے دوچار ہے، حکومتی اور حزبِ اختلاف کے کیمپوں سے پوری سیاسی قیادت دوسرے درجے کے رہنماؤں کے ہاتھوں میں حکومت اور سیاسی جماعتیں چھوڑ کر ملک سے باہر ہے۔

وزیراعظم نواز شریف، وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ اتوار کی رات کو عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب روانہ ہوگئے، جہاں وہ رمضان کا آخری عشرہ گزاریں گے۔ وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال پہلے ہی اعتکاف میں بیٹھنے کے لیے سعودی عرب جاچکے ہیں۔

سابق صدر آصف علی زرداری اپنے بچوں کے ساتھ دبئی میں ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے حالیہ دنوں میں باقاعدگی کے ساتھ لندن کا وزٹ کیا ہے۔

برطانیہ میں اپنے تازہ ترین عارضی قیام کے بعد عمران خان ابھی پیر کی صبح کو ہی واپس لوٹے ہیں۔پی ٹی آئی کی ترجمان ڈاکٹر شیریں مزاری کے مطابق عمران خان اپنی فلاحی اداروں کے لیے چندہ جمع کرنے اور چند دیگر تقریبات میں شرکت کے لیے برطانیہ گئے تھے۔

جے یو آئی ایف کے مولانا فضل الرحمان بھی سعودی عرب چلے گئے ہیں۔

حزبِ اختلاف کے رہنما اپنی غیرموجودگی کے حوالے سے خود کو اس تنقید سے کیسے دور رکھ سکتے ہیں، اگرچہ جمہوریت مستحکم ہے، تاہم ان کے لیے وضاحت کرنا مشکل ہوگا کہ جب ملک کوبحرانی کیفیت کا سامنا کرنا پڑرہا تھا تو وہ منظر سے غائب تھے۔

وزیراعظم ان کے میڈیا آفس کے مطابق سعودی عرب میں چھ راتیں قیام کریں گے۔

عام حالات میں دنیا بھر کے رہنما سالانہ چھٹیوں پر جاتے ہیں، لیکن خاص طور پر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد پاکستان آج تغیر پذیر حالات کا سامنا کررہا ہے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں دس لاکھ کے قریب لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ سویلین حکومت نے آپریشن ضربِ عضب کے سلسلے میں سب کچھ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

حکمران پارٹی کے ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے سعودی عرب میں اپنی جلاوطنی کے دوران یہ عادت بنالی تھی کہ وہ رمضان کے آخری دس دن مکہ اور مدینہ میں گزارتے تھے۔

گزشتہ سال حکومت نے صدارتی انتخابات کو چھ اگست سے تیس جولائی کو ری شیڈیول کرنے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، تاکہ وزیراعظم اور کابینہ کے دیگر اراکین سعودی عرب میں وقت گزار سکیں۔

مسلم لیگ ن کے کابینہ کے ایک رکن جو آن ریکارڈ بات کرنا نہیں چاہتے تھے، انہوں نے کہا کہ پارلیمانی طرزِ حکومت میں ملک چلانے کی مجموعی ذمہ داری وفاقی کابینہ کی ہوتی ہے۔ لہٰذا وزیراعظم کی غیرموجودگی میں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔

تاہم انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ملک میں سیکیورٹی کے بحران کو دیکھتے ہوئے اس سال وزیراعظم کو ملک میں رہنے کو ترجیح دینی چاہیٔے تھی۔

عوام اور کچھ سابق اعلیٰ سطح کے حکام نے بیک وقت وزیراعظم کے سعودی عرب میں قیام کو توسیع دینے پر اپنا ردّعمل ظاہر کیا ہے۔

بحریہ کے سابق سربراہ اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے سابق چیئرمین فیصل بخاری نے ٹوئیٹ کیا ’’نیشنل کمانڈ اتھارٹی (جس کے وزیراعظم سربراہ ہیں) کہاں ہے؟ دس دنوں کے لیے اسٹریٹیجک پلانز ڈویژن کے رابطے سے دور! اسٹریٹیجک غیرذمہ داری ناقابلِ قبول۔‘‘

ایک معروف سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں ’’یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ ایسے حالات میں جب کہ ملک بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے، وزیراعظم جو ملک کے چیف ایگزیکٹیو بھی ہیں، انہوں نے اپنی ذاتی مذہبی فرائض کو ریاستی ذمہ داریوں کے ساتھ خلط ملط کردیا ہے، یقیناً ایسا کبھی سننے میں نہیں آیا۔‘‘

انہوں نے کہا ’’میں ذاتی طور پر یہ یقین رکھتا ہوں کہ کوئی بھی انسانیت کی خدمت کرکے خدا کا محبوب بندہ بن سکتا ہے۔‘‘

جب سابق صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ اور پارٹی کے دیگر سینئر رہنما ملک میں موجود ہیں، اور ان تمام مسائل سے مؤثر طریقے سے نمٹ رہے ہیں، جن کا پارٹی کو سامنا ہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ زرداری نے پارٹی کے تمام عہدے داروں اور کارکنوں کو آئی ڈی پیز کی امداد کی ہدایت کی تھی۔

پارٹی کے سربراہ کے سعودی عرب دورے کی نوعیت جاننے کے لیے متعدد کوششوں کے باوجود جمیعت علمائے اسلام فضل کے ترجمان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

تبصرے (2) بند ہیں

AMIR Jul 23, 2014 02:07pm
ہمارے صاحب بھی ملک سے باہر ہیں آجکل!
AMIR Jul 24, 2014 03:01pm
لو جی! ہمارے صاحب تو واپس آگئے ہیں. باقی باہر ہی ہیں!