پاکستانی میڈیا میں اپنی تحریر کے ذریعے چھائی ہوئی مصنفہ عمیر احمد کو لگتا ہے کہ اپنے تمام تر قدامت پسندانہ تصور کے باوجود ملکی چینلز میں آن اور آف سکرین خواتین کا ہی غلبہ ہے۔

زندگی گلزار ہے اور ایسے ہی متعدد سپر ہٹ ڈراموں کی خالق عمیرہ احمد کو حال ہی میں ہندوستان میں بھی بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی ہے جس کی وجہ ان کا درمیانے طبقے کی ایک لڑکی کی جدوجہد پر مبنی ڈرامہ 'زندگی گلزار ہے' کی کامیابی بنی ہے۔

ہندوستانی میڈیا کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں عمیرہ نے کہا کہ پاکستان میں خواتین ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز موجود ہیں، درحقیقت ایک پورا چینل ایک خاتون ہی چلا رہی ہے، پاکستانی ٹی وی ترقی کر رہا ہے اور یہاں خواتین آج چھائی ہوئی نظر آتی ہیں۔

زندگی گلزار ہے جو عمیرہ احمد کے اسی نام سے لکھے جانے والے ناول پر ڈائریکٹر سلطانہ صدیقی نے بنایا جو ہم چینیل کی صدر بھی ہیں۔

عمیرہ احمد کہتی ہیں کہ ہمارے بارے میں سوچا جاتا ہے کہ یہ ایک قدامات پسند ملک ہے جہاں خواتین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا، مگر یہاں ہمارے پاس خواتین فنکاروں کی کوئی کمی نہیں درحقیقت ٹی وی کیلئے لکھنے والوں میں اکثر خواتین رائٹرز ہی ہیں۔

انھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستانی ڈراموں کو ہندوستانی چینیل 'زندگی' میں نشر کئے جانے سے ملک کے بارے میں غلط تصورات کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

عمیرہ احمد کے مطابق ہندوستان میں پاکستانی زندگی سے متعلق اجنبیت موجود ہے کیونکہ یہاں کے بارے میں تصور کافی منفی ہے تو ہر شخص کو لگتا ہے کہ پاکستان میں حالات ہمیشہ خراب رہتے ہیں اور ہم خوش باش زندگی نہیں گزار سکتے۔

انھوں نے کہا کہ کچھ حوالوں سے تبدیلی آنا شروع ہوگئی ہے ہمارے ڈراموں کو دیکھنے کے بعد لوگ جاننے لگے ہیں کہ ہماری زندگیاں بھی ان کے جیسی ہی ہیں۔

‫عمیرہ احمد کا اگلا ڈرامہ 'مات' زندگی گلزار ہے کی جگہ لے گا، اس ڈرامے میں بھی خواتین کا کردار مرکزی ہے، یہ دو ایسی بہنوں کی کہانی ہے جن کا زندگی کے بارے میں تصور اور اصول مختلف ہیں۔

اس ڈرامے میں مرکزی کردار صبا قمر، آمنہ شیخ اور عدنان صدیقی نے نبھائے تھے اور اسے عمیرہ احمد کے سپر ہٹ ڈراموں میں ممتاز مقام حاصل ہے۔

بشکریہ انڈیا ایکسپریس

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Affan Jul 22, 2014 04:33pm
dont think like this, they will never accept your "+ve impression" treat them in the same way as hey treat you.
راضیہ سید Jul 23, 2014 10:42am
میں سمجھتی ہوں کہ ہندوستان کبھی بھی ہمارا دوست نہٰیں رہا ، امریکا ، افغانستان اور بھارت ایسے ممالک ہیں جنہوں نے صرف ہمیں اپنی ضرورت کے تحت ہی یا د کیا ہے ، اس وقت بھارت کو اپنے ڈرامہ ٹرینڈ تبدیل کرنے کی ضرورت تھی انھوں نے پاکستان سے رابطہ کیا کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ انڈیا کی فلمیں اور ڈراموں نے وہاں کی نئی نسل پر کیا اثرات چھوڑے ہیں کہ دن رات وہاں پر صرف ریپ ہو رہا ہے ، جہاں تک بات رہی عمیرہ احمد کی یقینا وہ لکھنے والی اچھی ہیں لیکن کہانی وہی ہوتی ہے جو مکالموں سے آگے بڑھے ، میں بہت حیران ہوتی ہوں کہ آج کل کے لکھنے والے اور والیاں بس واقعات بیان کر دیتی ہیں آپ ڈائیلاگ کیوں نہیں لکھ سکتے تاکہ ڈرامہ دیکھنے والا یا آپ کا قاری ساتھ ساتھ آگے جائے اور اپ کے ساتھ سفر کرے ، ان کرداروں کو حقیقی سمجھے ، میں نے رضیہ بٹ ، عابدہ نرجس ، اقبال بانو ، عصمت چغتائی ، ذکیہ بلگرامی ، نگہت عبداللہ کی کہانیوں کو پڑھا ہے یقین جانئے ان کی کہانیوں کو جب تک آپ ایک نشست میں ختم نہ کر لیں آپ چین نہیں لے سکتے ، ہم ٹی وی کے ڈراموں میں کیا خاص بات ہے ؟ وہی بڑے بڑے گھر ، غربت کا نام و نشان نہیں ، جدید تراش خراش کے لباس جو ستر پوشی بھی مشکل سے کریں ، پھر ایک جسی کہانی ، جناب پہلے آپ لباس کی خوبصورتی یکے حوالے سے اپنا ایک امیج بلڈ کریں اور اسکے ساتھ ہی ساتھ اچھے لکھاریوں کو لکھنے کی دعوت دیں ، آخری بات انڈیا پر اتنا بھروسہ اچھا نہیں اکثر اوقات دوستی کا دم بھرنے والے ہی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیتے ہیں ۔