بے وجہ پوائنٹ اسکورنگ

23 جولائ 2014
ہوسکتا ہے عمران خان پی ایم ایل-ن کی حکومت گرانا چاہتے ہوں لیکن کیا وہ واقعی ملک اور اسکے جمہوری اداروں کے لئے خطرہ ہیں؟
ہوسکتا ہے عمران خان پی ایم ایل-ن کی حکومت گرانا چاہتے ہوں لیکن کیا وہ واقعی ملک اور اسکے جمہوری اداروں کے لئے خطرہ ہیں؟

جب یہ خبر ملی کہ فرار ہونیوالا مجرم عدنان راشد دوبارہ گرفتار ہوگیا ہے تو دل چاہا کہ اسے خط لکھا جائے اور وہ بیشمار وجوہات بتائی جائیں کہ اسکے اور اسکے قبیل کے دوسرے لوگوں کے خیالات کیوں نفرت انگیز ہیں اور یہ کہ اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے نہ کہ بے لگام گھومتا پھرے-

لیکن ایک عام سے انسان، ایک کالم نگار کا خط شائد ہی اس پر اثر کرے جبکہ مشہور اور معروف شخصیتیں اس سے پہلے کوشش کرچکی ہیں اور ناکام ہوچکی ہیں- یہ قاتل ٹھگ جو خود کو حق کی راہ پر سمجھتے ہیں ناقابل اصلاح ہیں-

اس لئے، خط لکھنے کا مطلب ہوگا نمبر بنائے جائیں-اور چونکہ اس کھیل کے ماہر لوگوں کی کمی نہیں اور ہم جیسے لوگ تو محض خواہش ہی کرسکتے ہیں تو عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ یہ کھیل ان لوگوں کے لئے چھوڑ دیا جائے-

ہاں، عمران خان سے لیکر حکمراں پی ایم ایل-ن کے ستاروں کی جھرمٹ تک، اور سابقہ معروف ترین پی پی پی کے رہنماؤں سے لیکر متحدہ قومی موومنٹ تک اگر ان میں کوئی چیز مشترک ہے، جس کے وہ ماہر ہیں تو وہ ہے نمبر بنانا- لیکن جب کچھ کر دکھانے کا وقت آتا ہے تو کہانی کا رخ ہی بدل جاتا ہے-

اس ہفتہ کسی نے عمران خان کی ایک تصویر ٹویٹ کی جس میں وہ لندن کی کسی تقریب میں شریک ہیں اور یہ کہا کہ جب سابق صدر آصف زرداری اپنے بچوں کے ساتھ چھٹی منا رہے تھے جبکہ ملک کا بڑا حصہ سیلاب کی زد میں تھا تو عمران خان نے وہ شور و غوغا مچایا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی-

لیکن اب جبکہ تقریباً ایک ملین آی ڈی پیز جن میں سے بیشتر کے پی میں داخل ہوچکے ہیں، جہاں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اور جنھیں امداد کی ضرورت ہے، پی ٹی آئی کے رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ بیرون ملک دورہ کرنے میں کوئی حرج نہیں-

اگرچہ کہ میں اس سے پوری طرح اتفاق نہیں کرتا، کیونکہ حکومت کی مشینری کو اس قابل ہونا چاہیئے کہ وہ ہنگامی صورتحال سے نمٹے لیکن صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے میں یہ کہونگا کہ یہ دورہ انتہائی بیوقت تھا-

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں اپنے لاکھوں ہم وطنوں کی ناقابل بیان تکالیف کا قطعی کوئی احساس نہیں ہے اور وہ انھیں نظرانداز کررہے ہیں- جو لوگ عمران خان کی سماجی خدمات سے واقف ہیں وہ کہینگے کہ اس بات میں کوئی سچائی نہیں- لیکن جب منظر اسقدر بھیانک ہو تو سچائی پس پردہ چلی جاتی ہے-

بلکہ،عمران خان کا یہ عزم کہ وہ 14 اگست کے احتجاجی مارچ/دھرنے پر نظرثانی نہیں کرینگے اور اس مطالبہ پر بضد رہینگے کہ گزشتہ سال کے انتخابات میں پڑنے والے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کروائی جائے، ان کے نقادوں کو ایک اور موقع فراہم کرے گا-

ان کے نقاد یہ کہینگے کہ پی ٹی آئی کا رہنما اقتدار کا بھوکا ہے، حقیقت میں وہ یہی چاہتا ہے کہ مڈ ٹرم انتخابات ہوں اور صبر کرنا نہیں چاہتا، گو کہ ملک کے شمال مغربی علاقوں میں ہمارے سپاہی جان دے رہے ہیں تاکہ دہشت گردوں سے اپنا علاقہ واپس لے سکیں جو کہ برسوں کی بے عملی کی وجہ سے ان کے قبضہ میں ہے-

تو یہ ہے کہانی پی ٹی آئی کے رہنما کی جو ہمیشہ پوائنٹ اسکورنگ کے چکر میں رہتے ہیں- پاکستانی سیاست میں استثناء کی مثالیں نہیں ملتیں- ذرا یاد کیجیئے کہ پی پی پی کی سابقہ حکومت میں بدعنوانیوں اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا کیا حال تھا- پی ایم ایل-ن نے اس پر تنقید کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی-

اب جبکہ وہ مکمل طور پر اقتدار میں ہیں (مخلوط حکومت میں گورنمنٹ کی کارکردگی کم ہوجاتی ہے) اور ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے، کیا انھوں نے اہم شعبوں میں کچھ کر دکھایا ہے؟

وہ نمبر بنانے میں اس قدر ماہرہیں کہ بہت سے لوگ یہ بھی بھول گئے کہ انھیں کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی پارٹی کی حکومت ملک کے 50 فی صد سے زیادہ حصے پرہے-

انھوں نے واضح طور پر پوائنٹ اسکورنگ کی ہے اور انھیں یہ خوب معلوم بھی ہے- لیکن کیا اس ایک سال سے زیادہ کی مدت میں جبکہ ان کی حکومت ہے کیا ہمیں ایسے کوئی منصوبے اور ٹھوس اقدامات نظر آتے ہیں جس سے ہم میں یہ اعتماد پیدا ہو کہ ملک ترقی کررہا ہے اور یہ کہ ہمارا مستقبل روشن ہے؟

بجلی کی پیداوار اور تقسیم میں جو گڑبڑ گھٹالا نظر آتا ہے اس پر ایک نظر ڈالنا کافی ہوگا- جیسے جیسے پارہ چڑھتا جاتا ہے ان کے وزیر اور قیادت عذر پیش کرنے لگتی ہے اور لمبی لمبی وضاحتیں کی جاتی ہیں کہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے میں کم سے کم دس سال کا عرصہ درکار ہے، جبکہ یہی لوگ سینہ ٹھونک ٹھونک کر کہتے تھے کہ پی ایم ایل-ن کو اقتدار میں آنے دیں یہ مسئلہ چند مہینوں میں حل ہوجائیگا-

اگر ہم حکمراں جماعت کی اعلیٰ قیادت کی باتیں سنیں تو ہمیں یہ محسوس ہوگا کہ ملک کو سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی یا ان کی زہریلی آئیڈیالوجی سے نہیں جو اس کو اور ہوا دیتی ہے، بلکہ اسکی وجہ معاشی ترقی کی کم شرح بھی نہیں ہے جو چند اکائیوں میں ہے جس کی بڑی وجہ بجلی کا بحران ہے، بلکہ سب سے بڑا خطرہ عمران خان اور ان کی پارٹی ہے-

ہوسکتا ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی پی ایم ایل-ن کی حکومت کو گرانا چاہتے ہوں لیکن کیا وہ واقعی ملک اور اسکے جمہوری اداروں کے لئے خطرہ ہیں؟ اگر وہ تمام لوگ جو جمہوریت چاہتے ہیں اور جمہوری طریقوں پر عمل کریں تو اسکا جواب لازمی طور پر نفی میں ہوگا-

اگر کسی تحریک کی کامیابی کا یقین ہو تو سبھی چاہینگے کہ اس میں شامل ہوجائیں- کون ہوگا جسے یہ یاد نہیں کہ پی پی پی کے رہنما آصف زرداری نے ناقابل یقین طور پر فراخدلی کے ساتھ وزیر اعظم کو (جو فوراً فوراً ہی منتخب ہوئے تھے) خراج تحسین پیش کیا تھا اور انھیں حکومت کی مدت پوری کرنے تک حمایت کا یقین دلایا تھا "جب الیکشن کی مہم شروع ہوگی تب تک؟"

اور اب وہ پی ٹی آئی کے پرانے مطالبے کی حمایت کررہے ہیں کہ چار حلقوں کے ووٹوں کی گنتی دوبارہ کرائی جائے اور اگرچہ ان کی پارٹی 14 اگست کے مارچ میں شامل نہیں ہوگی لیکن اسکی حمایت کریگی-

اس تبدیلی قلب کی وجہ یقیناً وہ تحفظات ہیں جس کا اظہار مسٹر شریف نے سندھ کی پولیس میں مسلسل کی جانے والی تبدیلیوں کے تعلق سے کیا تھا، حالانکہ کراچی میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خلاف مجوزہ آپریشن اب بھی جاری ہے-

ابھی لوگ اس بات کو ہضم کرنے کی کوشش ہی میں ہیں کہ ایم کیو ایم کے بعض عہدہ دار اور ٹویٹر پر سرگرم ان کے بعض کارکنوں نے پی پی پی پر تابڑ توڑ حملے شروع کردیئے جس سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ شائد اس ہفتہ یا شائد اس مہینہ ان کی شہری سندھ کی پارٹی صوبے کی اپوزیشن میں تھی- لیکن فوری تحقیق سے پتہ چلا کہ ان کے چھ اراکین اب بھی سندھ کی حکومت میں شامل ہیں-

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ سن کر حیرت ہوتی ہے کہ بلا وجہ کی پوائنٹ اسکورنگ کی جگہ تعمیری پارلیمانی تنقید کیجاۓ- یقیناً ایسے بہت سے شعبے موجود ہیں جہاں جائز تعمیری تنقید بہتر نظم ونسق میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے- لیکن کیا ہمارے لیڈر اس طرف توجہ دینگے؟

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

یاسر Jul 25, 2014 11:40am
مجھے یہ کالم پڑھ کر جیو نیوز چینل کا پروگرام "ایک دن جیو کے ساتھ " کے ہوسٹ کا ایک معروف جملہ "کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟" یاد آ گیا ہے- کالم نویس نے جس طرح بے وجہ پوائنٹ سکورنگ کے مخالفت میں لکھتے ہوئے ازخود پوائنٹ اسکورنگ کی ہے، عنقریب ہم انھیں قائم مقام وزیراعلیٰ کے منصب یا پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیرمین کے منصب پر فائز دیکھ رہے ہیں- عباس ناصر سیٹھی صاحب سے گزارش کے ساتھ عرض ہے کہ عمران خان کے پاس کوئی سرکاری منصب ہے جس سے اُن پر ان آفت زدہ حالات کی کوئی سرکاری زمہ داری واجب ہوتی ہے پر اس کے باوجود خیبر پختونخواہ میں ان کی حکومت اور وہاں کے زمہ دار اہلکار اپنے پَلے کے بجٹ سےفاٹا کے مہاجرین کی نہ صرف بھرپور امداد کر رہے ہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریکِ انصاف کے رضاکار محترمہ فوزیہ قصوری کی قیادت میں اور عمران خان کی ذاتی "عمران خان فاؤنڈیشن"پہلے دن سے ہی دن رات مہاجرین کی مدد کر رہے ہیں- باقی صوبوں کی شوبازیاں تو صرف چند پہلے اور وہ بھی وفاق کی امداد ملنے کے بعد شروع ہوئی ہیں جبکہ پختونخواہ کو ابھی تک مہاجرین کی کفالت کی مد میں کوئی امداد نہیں ملی- عمران خان آپریشن کے ابتدائی دنوں مٰیں باقی تمام حکمرانوں سے پہلے متاثرین مہاجروں سے ملے، اُن کی مشکلات سنی اور دیکھیں اور پختون خواہ حکومت کو مطلعقہ احکامات جاری کیے- ان کا تین دن کے لیے لنڈن جانا بھی اپنی ذات کے خاطر نہیں تھا ماسوائے اپنی اولاد کو کئی ماہ بعد آدھے دن کا وقت دیا- لیکن بریڈفورڈ یونیورسٹی کا دورہ اور نمل یونیورسٹی کے امدادی رقوم اکھٹی کرنا اس وقت جب نمل میں داخلے شروع ہو چکے ہوں اور محستقین طالب علموں کے لیے امدادی رقم