ریاض: سعودی کابینہ نے خواتین کو اگلے سال میونسپل انتخابات میں حصہ لینے اور ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

سعودی عرب میں موجودہ سیاسی و معاشرتی روایات کو دیکھتے ہوئے اسے ایک بڑا اور اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

کچھ حلقے 2011 کے الیکشن میں خواتین کے حصہ لینے کے حوالے سے پر امید تھے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

اُس وقت ولی عہد عبداللہ نے اعلان کیا تھا کہ 2015 کے بعد انتخابات میں خواتین کو حصہ لینے کی اجازت ہو گی۔

کابینہ نے اس نئے قانون کے ذریعے ولی عہد عبداللہ کے وعدہ پورا کیا ہے۔

نئے قانون کے تحت خواتین اور مردوں کو بطور امید وار کھڑا ہونے، ووٹ دینے اور دوسروں کو نامزد کرنے کا حق حاصل ہو گا۔

نیا قانون آزاد، غیر سرکاری اور غیر منافع بخش اداروں اور خیراتی تنظیموں کو انتخابات پر نظر رکھنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔

تاہم ، ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ انتہائی قدامت پسند معاشرے میں خواتین امید واروں کو الیکشن مہم چلانے کی اجازت ملے گی یا نہیں۔

سعودی وزیر برائے میونسپل اور دیہی امور کو کونسلوں کے سائز اور بناوٹ طے کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔

خیال رہے کہ قوانین کے تحت کونسلوں میں ارکان کی تعداد تیس سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ ان میں سے دو تہائی منتخب جبکہ ایک تہائی وزیر کے نامزدکردہ ہوں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

راضیہ سید Jul 24, 2014 12:58pm
سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے جو قدامت پسند ہے اور خصوصا خواتین کے حوالے سے کہ جی ڈرائیونگ پر پابندی ہے وہ بھی خواتین کے لئے ، سیاسی عمل میں حصہ لینے پر پابندی ہے وہ بھی خواتین پر ، یعنی خواتین کے لیے تمام تر مشکلات ہیں باقی شیخ حضرات جو کچھ مرضی کرتے رہیں انکی مرضی اور منشا ہے اب بھی جو یہ فیصلہ میونسپل کی سطح پر ہوا ہے وہ ایک حد تک درست ہے لیکن زیادہ نہیں کیونکہ قومی سطح پر تو خواتین کو شریک نہیں کیا جا رہا اور اگر انھیں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تو پھر ان کا میوسپل انتخابات کے لئے بھی حصہ لینا یا نہ لینا برابر ہے ۔ تاہم ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین کو زیادہ تر چار دیواری میں مقید رکھا جاتا ہے دعا ہے کہ یہ فیصلہ ایک روزن میں سے روشنی کی لکیر کی مانند ثابت ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔